11 مارچ ، 2024
اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران سخت برہمی کا اظہار کیا ہے۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے صحافیوں کو ایف آئی اے کے نوٹس دیے جانے اور ہراساں کیے جانے کے خلاف کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے آئی جی اسلام آباد پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک جرم کی ریکارڈنگ موجود ہے، ان ملزمان کا سراغ نہیں لگا سکے؟
انہوں نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب یہ کس قسم کے آئی جی ہیں؟ ان آئی جی کو ہٹا دینا چاہیے، چار سال ہوگئے، کیا آپ کو چار صدیاں چاہیے؟
چیف جسٹس نے آئی جی اسلام آباد سے کہا کہ پورا ملک آپ کی کارکردگی دیکھ رہا ہے، آئی جی اسلام آباد کے رویے سے لگتا ہے کہ وہ سہولت کاری کررہے ہیں، کسی صحافی کو گولی ماردو، کسی پرتشدد کرو، کسی کو اٹھالو، سیف سٹی کیمرے خراب ہوجاتے ہیں۔
سماعت کے دوران بیرسٹر صلاح الدین نے عدالت کو بتایا کہ اسد طور اس وقت جیل میں ہیں جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اسدطور جیل میں کیوں ہیں؟ اس پر بیرسٹر صلاح الدین نے بتایا کہ اسد طور کے خلاف ایک ایف آئی آر درج ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اسد طورکے خلاف مقدمے میں سنگین نوعیت کی دفعات عائد کی گئی ہیں، حساس معلومات سمیت عائد دیگر دفعات کا اطلاق کیسے ہوتا ہے؟ انکوائری نوٹس میں لکھا گیا کہ عدلیہ کے خلاف مہم پرطلب کیا جارہا ہے جب کہ ایف آئی آر میں عدلیہ کے خلاف مہم کا ذکرتک نہیں، یہ تو عدلیہ کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلائی گئی ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیوں ناں ایف آئی اے کو توہین عدالت کا نوٹس دیں، سپریم کورٹ کے کسی جج نے ایف آئی اے کو شکایت کی نہ رجسٹرار نے، سپریم کورٹ کا نام استعمال کرکے تاثردیا گیا جیسے عدلیہ کے کہنے پرکارروائی ہوئی، اس طرح تو عوام میں عدلیہ کا امیج خراب ہوگا۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا ہم اب عدلیہ کو بدنام کرنے پر ایف آئی اے کے خلاف کارروائی کرواسکتے ہیں؟ ایف آئی اے کے متعلقہ افسر خود عدلیہ کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں، آئی ایس آئی کا نمائندہ جے آئی ٹی میں کیسے شامل ہوسکتا ہے؟ آئی ایس آئی انٹیلی جنس ایجنسی ہے، قانون نافذ کرنے والا ادارہ نہیں، قانون کا نفاذ آئی ایس آئی کا دائرہ اختیار نہیں ہے۔