فیکٹ چیک : پولیس اہلکار کی خواتین پر تشدد کی ویڈیو رمضان پیکج کی تقسیم کے دوران کی نہیں

ویڈیو 2024 میں نہیں بلکہ 2019 میں ریکارڈ کی گئی تھی، اس بات کی تصدیق پنجاب کے متعدد پولیس حکام نے بھی کی۔

سوشل میڈیا پر 2 لاکھ سے زائد مرتبہ دیکھی جانے والی ایک ویڈیو کو اس دعویٰ کے ساتھ شیئر کیا جا رہا ہے کہ ماہِ رمضان میں پنجاب حکومت کی طرف سے راشن کی تقسیم کے دوران خواتین پر پنجاب پولیس کا ایک اہلکار تشدد کر رہا ہے۔

دعویٰ غلط ہے اور یہ ویڈیو پرانی ہے جس کا حال ہی میں پنجاب حکومت کی طرف سے نگہبان رمضان پیکیج کے تحت غریبوں میں تقسیم ہونے والے راشن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

دعویٰ

19مارچ کو X، جسے پہلے ٹوئٹر کے نام سے جانا جاتا تھا، پر ایک صارف نے 27 سیکنڈ کی ایک ویڈیو اپلوڈ کی، جس میں پولیس اہلکار کو کچھ خواتین کو تھپڑ مارتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ صارف نےاپنی پوسٹ کے کیپشن میں لکھا کہ ”ٹک ٹاکر فارم 47 والی وزیراعلیٰ کا دور ہے آٹے کے بدلے چپیڑیں ٹُھڈے ملیں گے۔“

اس نیوز آرٹیکل کے شائع ہونے تک اس پوسٹ کو 2 ہزار 400 مرتبہ ری پوسٹ اور 3 ہزار 700 بار لائک کیا گیا، جبکہ اس ویڈیو کو 84 ہزار مرتبہ دیکھا جا چکا ہے۔

اسی طرح کے دعوے یہاں، یہاں اور یہاں بھی شیئر کیے گئے۔

حقیقت

یہ ویڈیو 2024 میں نہیں بلکہ 2019 میں ریکارڈ کی گئی تھی، اس بات کی تصدیق پنجاب کے متعدد پولیس حکام نے بھی کی ہے۔

گوگل ریورس امیج سرچ سے معلوم ہوا کہ اس ویڈیو کو 2019 میں متعدد سوشل میڈیا صارفین نے شیئر کیا تھا۔

پنجاب پولیس کے ترجمان نے بھی تصدیق کی کہ یہ ویڈیو 22 جون 2019 کو ملتان کی ایک مقامی عدالت کے باہر ریکارڈ کی گئی تھی۔

ملتان کے چہلیک پولیس اسٹیشن کے موجودہ اسٹیشن ہاؤس آفیسر (SHO) راؤ مہتاب نے بھی جیو فیکٹ چیک کو بتایا کہ یہ واقعہ اس وقت ان کے تھانے کی حدود میں پیش آیا تھا جب عدالت نے ایک خاتون کو اس کے شوہر کے ساتھ جانے کا حکم دیا تھا۔

پولیس کا دعویٰ ہے کہ خاتون کے اہل خانہ نے پولیس پر حملہ کیا جس کے جواب میں ایک پولیس اہلکار نے ان پر جوابی وار کیا۔ راؤ مہتاب نے 2019 میں پیش آنے والے اس واقعے کی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (FIR) بھی جیو فیکٹ چیک کے ساتھ شیئر کی۔

پنجاب پولیس کے ترجمان نے یہ بھی وضاحت کی کہ ویڈیو میں نظر آنے والے پولیس اہلکار سلامت علی کو بعد میں پنجاب پولیس نے شوکاز نوٹس جاری کیا تھا۔

جیو فیکٹ چیک نے سلامت علی سے بھی رابطہ کیا، انہوں نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ”یہ 2019 کا وقوعہ ہے، اس وقت میں ایس ایچ او تھا [اور] تھانہ چہلیک [میں تعینات تھا]۔ “

اس کےعلاوہ ملتان پولیس کے آفیشل X اکاؤنٹ نے بھی ایک پوسٹ کے زریعے آن لائن دعووں کی تردید کی۔

اضافی رپورٹنگ: نادیہ خالد

ہمیں@GeoFactCheck پر فالو کریں۔

اگرآپ کو کسی بھی قسم کی غلطی کا پتہ چلے تو [email protected] پر ہم سے رابطہ کریں۔