فعال ایم کیوایم، غیرفعال ایم کیوایم (حصہ اول)

سوال یہ ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے جو رہنما غیر فعال ہیں، کیا یہ ان کا ذاتی فیصلہ ہے یا زمین تنگ ہونے پر وہ یہ آپشن اختیار کرنے پر مجبور ہوئے؟— فوٹو:فائل
سوال یہ ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے جو رہنما غیر فعال ہیں، کیا یہ ان کا ذاتی فیصلہ ہے یا زمین تنگ ہونے پر وہ یہ آپشن اختیار کرنے پر مجبور ہوئے؟— فوٹو:فائل

دھڑے بندی کا شکار متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اس بار فعال اور غیرفعال ایم کیو ایم میں تقسیم کردی گئی ہے۔

سوال یہ ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے جو رہنما غیر فعال ہیں، کیا یہ ان کا ذاتی فیصلہ ہے یا زمین تنگ ہونے پر وہ یہ آپشن اختیار کرنے پر مجبور ہوئے؟ یہ بھی کہ جو رہنما فعال ہیں ان کی فعالیت ایم کیوایم کیلئے کس قدر مفید ثابت ہورہی ہے؟

ان باتوں کا جواب جاننے کی کوشش کریں گے مگر پہلے اس بات کا  ذکر ضروری ہے کہ ایم کیوایم کو فعال اور غیرفعال میں بانٹنے کی نوبت کیسے آئی؟

اس نمائندے نے چند دن پہلے جیونیوز پر نشر اور جیونیوز اردو پر شائع اپنی رپورٹ میں ایم کیوایم کے اہم دھڑوں کی دبئی میں غیرمعمولی میٹنگ کی خبر دی تھی۔

 اس میٹنگ میں سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد، ایم کیوایم کے ایک سینیئر رہنما عامر خان اور سابق وفاقی وزیر بابرغوری نے خطاب کیا اور بتایا تھا کہ یہ رہنما کراچی میں اسٹریٹ کرائم میں شہریوں کی بڑھتی اموات پر تشویش کا شکار ہیں اور چاہتے ہیں کہ امن وامان قائم ہو اور کراچی کی روشنیاں واپس لوٹیں۔

ساتھ ہی یہ بھی کہ ایک اور سینیئر رہ نما حیدر عباس رضوی نے بھی ان دنوں دبئی ہی میں ڈیرہ ڈالا ہوا ہے یعنی کوئی کھچڑی پک رہی ہے۔

 ایم کیوایم کے کنوینر خالد مقبول صدیقی  نے کچھ دن قبل حیدرآباد میں میڈیا سے بات کررہے تھے توان سے کسی نمائندے نے اسی خبر کے حوالے سے پوچھا تو وہ بولے کہ انہی رہنماؤں سے پوچھیں کہ وہ غیر فعال کیوں ہیں؟

اب سیاست سرکاری ملازمت تو ہوتی نہیں کہ سیاستدان ایک آدھ بار وزارت سنبھالنے کے بعد ریٹائرمنٹ لے یا دوسروں لفظوں میں غیرفعال ہوجائے، یہ تو وہ نشہ ہے جو 70 سال کے بوڑھے بزنس مین ڈونلڈ ٹرمپ کے دماغ پر چڑھ جائے تو وہ امریکا کا صدر بن جاتا ہے اور 78 برس کی عمر میں دوبارہ صدارت سنبھالنے کی تگ و دو میں مصروف نظر آتا ہے، صرف یہی نہیں تقریباً 82 برس کی عمر میں جوبائیڈن اس ٹرمپ کا مقابلہ کرتا ہے۔

ایسے میں ایم کیوایم کے نسبتاً جوان رہنما غیرفعال کیوں ہوئے؟ خالد مقبول صدیقی کے بیان کے بعد یہ جاننا اور اہم ہوگیا ہے۔

جو لوگ کراچی کی سیاست سے واقف ہیں، ان کے نزدیک ایم کیوایم کے کئی رہنماؤں نے فعال ہونے کی بارہا کوشش کی مگر انہیں دروازے بند ملے، وہ کہتے ہیں حیدر عباس رضوی ہی کو دیکھیں 2018 میں وہ الیکشن سے پہلے وطن واپس آئے مگر پھر واپس  لوٹنے پر مجبور ہوگئے۔

سابق وفاقی وزیر پورٹ اینڈ شپنگ بابرغوری بھی ان رہنماؤں میں سے ہیں جنہیں حالات نے غیرفعال ہونے پر مجبور کیا، انہوں نے 2017 میں پارٹی کو خیر باد کہہ دیا تھا مگر ناظم آباد سے تعلق رکھنے والے بابرغوری کے دل ودماغ سے کراچی نہ نکلا اور وہ اس عرصے میں مختصر مدت کیلئے دو بار کراچی لوٹے مگران کے دورے قانونی چارہ جوئیوں تک محدود رہے۔

یہ الگ بات ہے کہ بطور وفاقی وزیر مقتدر حلقوں میں اثرو رسوخ پیدا کرنیوالے بابرغوری کی آمد سے ایم کیوایم ہی کے بعض حلقوں پر خوف طاری ہوگیا کہ اچانک کہیں غوری میزائل چل تو نہیں جائے گا؟

یہ تو صرف دو مثالیں ہیں،کتنے ہی ایسے سینیئر رہنما تھے جو ایم کیوایم پاکستان سے وابستہ بھی ہوئے یا پی ایس پی میں شامل ہوئے مگر رفتہ رفتہ انہیں اندازہ ہوتا گیا کہ ان کی فعالیت سے کچھ لوگ خود کو غیر محفوظ محسوس کررہے ہیں۔

اس بار قومی اور صوبائی اسمبلی کے ٹکٹوں کی تقسیم نے رہی سہی کسر پوری کردی، ایم پی ایز کو چھوڑیں اس بار ایم کیوایم کے جو 16 امیدوار رکن قومی اسمبلی بنے ہیں ان میں خالد مقبول صدیقی، فاروق ستار، مصطفیٰ کمال، خواجہ اظہار الحسن، سید امین الحق، ارشد وہرا، آسیہ اسحاق صدیقی،احمد سلیم صدیقی، محمد جاوید، محمد معین، عامر پیرزادہ، محمد اقبال خان، حسان صابر، سید حفیظ الدین، فرحان چشتی اور صادق افتخار شامل ہیں۔

سوائے چند بڑے ناموں کے، ان میں سے بعض تو ایسے ہیں جو ایم کیوایم میں صف اول تو دور کی بات صف دوم سے بھی تعلق نہیں رکھتے۔

ایم کیوایم کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ بنیادی طورپر ان 16 ایم این ایز کو تین بڑے گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، وہ جن کا تعلق خالد مقبول صدیقی گروپ سے ہے، مصطفیٰ کمال گروپ سے ہے یا پھر فاروق ستار گروپ سے اور اس طرح تقریباً برابر کی تقسیم نے معاملات وقتی طورپر سلجھا تو دیے ہیں تاہم بہت سے سرکردہ رہنماؤں کی جگہ  پارٹی میں ختم کردی ہے۔

بانی ایم کیوایم کی پاکستان مخالف تقریر کے بعد ویسے بھی ان کے قریب سمجھے جانیوالے ایم کیوایم کے بہت سے سرکردہ رہنماؤں کی جگہ فطری طورپر ختم ہوگئی تھی۔

تاہم ایم کیوایم لندن سے راہیں جدا کرنے والی ایم کیو ایم پاکستان ہو، مصطفیٰ کمال کی جانب سے قائم کی گئی پاک سرزمین پارٹی ہو یا فاروق ستار کی تنظیم بحالی کمیٹی، ان سے وابستہ رہنماؤں کے بارے میں عام تاثر یہی تھا کہ یہ دھڑے جب ایک ہوں گے تو تمام پرانے چہرے اپنی جگہ بنالیں گے یعنی مائنس ون ہوگا، بانی سے قطع تعلق کرنیوالے سینیئرز کا پِک اٗینڈ چُوز نہیں ہوگا کیونکہ صرف وہی صورت ایم کیوایم میں نئی روح ڈال سکتی تھی۔

ویسے ایم کیوایم میں سینیئر رہنماؤں کی غیرفعالیت کی تاریخ پرانی ہے، بانی ایم کیو ایم نے 1991 میں جب عامر خان اور آفاق احمد کو پارٹی سے نکالا تھا تو وہ بھی کچھ عرصے تک غیرفعال رہے  تھے مگر اگلے ہی برس ایم کیو ایم حقیقی کی صورت میں دوبارہ ابھرے تھے۔

کراچی کے علاقے لانڈھی، ملیر اور شاہ فیصل کالونی کے کچھ علاقوں میں اپنا اثرو رسوخ رکھنے والے آفاق احمد کی  ایم کیوایم حقیقی آج بھی قائم ہے مگر آفاق احمد کی چند پریس کانفرنسوں اور تقریبات کے سوا شاید ہی اس میں کوئی فعالیت کا عنصرباقی ہو، یہ الگ بات ہے کہ آفاق احمد نے جو راہ  1992 میں اختیار کی تھی، اس پرثابت قدمی سے فعال رہے ہیں خواہ انہیں کتنا ہی سیاسی نقصان اٹھانا پڑا ہو۔

آفاق احمد کا ابتدا میں ساتھ دینے والے عامرخان کو شاید  جیل کاٹنے کے دوران احساس ہوا تھا کہ حقیقی کی سیاست نہیں چلے گی اور اسی لیے وہ بڑی امیدوں کےساتھ ایم کیوایم میں واپس آگئے تھے، یہ الگ بات ہے کہ فیڈرل بی ایریا کے رہائشی عامر خان بائیس اگست کے بعد کچھ عرصے فعال رہنے کے بعد رفتہ رفتہ غیرفعال کردیے گئے۔

سینیئر رہنماؤں میں عامر خان شاید وہ واحد رہنما ہیں جنہوں نے ساری عمر ایم کیو ایم کی تنظیم سازی میں گزار دی اور ماضی کی ایم کیوایم میں یوں تو پارٹی کا عہدہ کسی بھی وزارت سے بڑا تصور کیا جاتا تھا مگر ہرسیاستدان قومی سطح کے عہدے پر براجمان ہونا چاہتا ہے، آخر کو خالد مقبول صدیقی پارٹی کی مرکزی ایڈہاک کمیٹی کے سربراہ ہیں اور ایم کیوایم کے واحد وفاقی وزیر بھی ہیں۔

کچھ عرصہ تک ایم کیوایم پاکستان کی کنوینرشپ سنبھالنے والے عامر خان ہی بتا سکیں گے کہ عشروں بعد جب انہوں نے گورنری قبول کرنا چاہی توانہیں وہ کیوں نہ ملی، جب سینیٹر بننے پر آمادگی ظاہر کی تو فیصل سبزواری کی قسمت کیسے جاگ اٹھی؟

اسی طرح کراچی کے سابق میئر وسیم اختر ہی بتاسکیں گے کہ ایم کیوایم کے کن رہنماؤں سے ان کی نوبت گالم گلوچ تک پہنچی تھی اور آخر وہ دلبرداشتہ ہو کر ملک سے کیوں گئے؟کہیں انہیں بھی ہاؤس فُل کے بورڈ کا سامنا تو نہیں ہوگیا تھا؟ اورکیوں وطن واپس آکر بھی وہ فعال ایم کیوایم کے بجائے، دبئی میں ایم کیوایم کے ایک غیرفعال سینیئر رکن سے رابطے میں ہیں۔

گورنرہاؤس کو آئی ٹی یونیورسٹی میں تبدیل کرکے پانچ لاکھ نوجوانوں کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کا مفت کورس کرانے والے، مسائل کا شکار شہریوں کی آواز اور سفارتکاروں میں مقبول کامران ٹیسوری ہی بتاسکیں گے کہ آخر ایم کیوایم کا بہتر امیج  بنانے کی کوشش کے باوجود ان کے ہوتے ہوئے خوش بخت شجاعت کی گورنری کون چاہتا ہے؟