03 اپریل ، 2024
اسلام آباد ہائیکورٹ میں محکمہ انسداد دہشت گردی کے افسر نے بیان دیا ہے کہ ہائیکورٹ کے ججوں کو بھیجے گئے اینتھراکس والے خطوط راول پنڈی جی پی او سے آئے، خطوط جی پی او میں کس لیٹر باکس سے پہنچے؟ اس کے لیے سی سی ٹی وی کیمرے دیکھ رہے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کو بھیجے گئے اینتھراکس والے خطوط کے معاملے پر ڈی آئی جی آپریشنز شہزاد بخاری اور ایس ایس پی سی ٹی ڈی ہمایوں حمزہ مختصر عدالتی نوٹس پر عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ مقدمہ درج ہو گیا، یہ بتائیں کہ تفتیش میں کیا پیش رفت ہے؟
ڈی آئی جی آپریشنز نے بتایا کہ ہم نے خطوط اور ان کے لفافے اینالیسز کے لیے لیب کو بھجوا دیے ہیں، خطوط کے لفافوں پر لگی مہر صحیح طور پر پڑھی نہیں جا رہی، پوسٹ ماسٹر جنرل کو اس متعلق لکھا ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ ابھی اسٹیمپ ہی نہیں پڑھ پا رہے ہیں تو ہم کس کو کہیں؟ آپ کا اسٹاف صرف ناکوں پر کھڑے ہونے اور لوگوں کو تنگ کرنا جانتا ہے، ہمیں روز شکایتیں آتی ہیں کہ وکلا کو پولیس ناکے پر روکا گیا ہے، آپ نے لیٹرز تجزیے کیلئے بھجوانے کے علاوہ کیا کیا؟
انہوں نے استفسار کیاکہ اب تو سی سی ٹی وی کیمرے ہر جگہ لگے ہوتے ہیں، کیا پتہ نہیں چل سکتا کہ یہ کون سے ڈاکخانے سے پوسٹ کیے گئے ہیں؟
اس پر سی ڈی ڈی افسر نے بتایا کہ ابتدائی تفتیش کے مطابق یہ لیٹرز کسی لیٹر باکس سے راولپنڈی جی پی او آئے اور پھر وہاں سے ہائی کورٹ ڈیلور ہوئے، ہم لیٹر باکسز کے پاس سی سی ٹی وی کیمرے دیکھ رہے ہیں، کچھ لیٹرز پر بھجوانے والے کا نام ریشم اور کچھ پر ریشمہ لکھا ہے۔
ڈی آئی جی آپریشنز شہزاد بخاری نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا کہ ججز کو ملنے والے خطوط میں تفتیش جلد مکمل کر لیں گے، اسی طرح کے لیٹرز سپریم کورٹ اور لاہور ہائیکورٹ کے ججز کو بھی موصول ہوئے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عید قریب آرہی ہے ، ناکے پر کھڑے ہونے والوں کو ہدایات کریں ،جو ناکے پر کچھ دے رہا ہے اس کی بھی عید ہے ، اس کا بھی خیال کریں
بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ یہ پولیس اور انوسٹی گیشن ایجنسیز کے لیے ٹیسٹ کیس ہے، ان کو ضرور ریشمہ کو ڈھونڈنا چاہیے۔