بلاگ
Time 04 اپریل ، 2024

فعال ایم کیو ایم، غیرفعال ایم کیو ایم (حصہ دوم)

فوٹو: فائل
فوٹو: فائل

سوال یہ بھی ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان میں آخرکون ہے جو خود کو سب سے زیادہ غیر محفوظ تصور کرتا ہے؟ کون ہے جس نے ایم کیو ایم پاکستان کے دروازے پر ہاؤس فُل کا بورڈ لگا کر اندر سے تالا لگا لیا ہے؟ اور یہ بھی کہ فیصل واوڈا کو بطور سینیٹر ووٹ دینے کا فیصلہ اتفاق رائے سے تھا یا قائد کا ایک اشارہ ،حاضر ہے لہو ہمارا ہوگیا؟

یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ مصطفیٰ کمال اور کامران ٹیسوری کی آڈیو لیکس کے بعد اچانک توڑی گئی ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کئی اہم شخصیات پرمشتمل تھی۔کیا رابطہ کمیٹی توڑنے کا فیصلہ متفقہ تھا؟ اگر متفقہ تھا تو جو لوگ اس کا حصہ تھے وہ غیرفعال کیوں ہوگئے؟

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی سربراہی میں جو مرکزی ایڈ ہاک کمیٹی بنائی گئی اس میں سید مصطفیٰ کمال، انیس قائم خانی، ڈاکٹرفاروق ستار، نسرین جلیل، کیف الوری اور رضوان بابر کو شامل کیا گیا۔

اس صورتحال میں ایم کیو ایم کے بعض رہنما منتظر ہیں کہ انہیں آڈیو لیک کرنے والوں کا نام بتایا جائے۔ شاید نام ظاہر نہ کرنے میں کوئی حکمت عملی ہوگی اور یقیناً  کوئی وجہ ہی ہوگی جو تاحال نئی رابطہ کمیٹی قائم نہیں کی گئی۔

یہ بھی واضح نہیں کہ ایم کیو ایم منظم کیسے ہوگی۔ ماضی کی طرح نچلی سطح پر یونٹ اور سیکٹر انچارج ہوں گے یا اس میں اصلاحات لائی جائیں گی کیونکہ شہروں کا انتظام سیاسی لحاظ سے اس انداز سے نہیں کیا جاتا، یونٹ اور سیکٹر کے تو عموماً کمانڈر ہوا کرتے ہیں، انچارج نہیں۔

اس پوری کہانی میں ایم کیو ایم لندن کا ذکر اس لیے نہیں کیا جارہا کیونکہ اس کی پاکستانی سیاست میں اب کوئی جگہ نہیں،کراچی کا کوئی شہری نہ بھتہ دینا چاہتا ہے نہ ہڑتال کرکے اپنے کاروبار کو تباہ، نہ بوری بند لاش دیکھنا چاہتا ہے، نہ جلاؤ گھیراؤ۔ نہ چائنا کٹنگ اور غیر قانونی تعمیرات۔

ایک اشارے پر کراچی سوئچ آن اور سوئچ آف ہونے کا دور بیت چکا۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض سفارتکار جب ایم کیو ایم رہنماؤں سےملتے ہیں تو ازراہ مذاق ہی سہی، پوچھ لیتے ہیں کہ بھائی کا کیا ہوگا؟

قصہ مختصر، فعالیت کی بنیاد پردیکھیں تو ایم کیو ایم پاکستان کو اس وقت تین دھڑوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے،ایک وہ جو پاکستان میں فعال ہیں، دوسرے وہ جو پاکستان یا بیرون ملک غیرفعال ہیں اور تیسرے وہ جو بیرون ملک فعال ہیں مگر بعض وجوہات کی بنا پر پاکستان میں فعال نہیں۔

پچھلے چند ماہ پر نظر ڈالیں تو سہانا سپنا سجائے تیسری کیٹیگری میں شامل ہونےوالوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، عامر خان کا ان میں جا ملنا ایک علامت ہے۔اس گروپ کے سرکردہ ناموں میں سندھ کے سابق گورنر ڈاکٹرعشرت العباد بھی ہیں جنہیں خود بانی ایم کیوایم چاہتے ہوئے بھی کئی بار غیرفعال نہ کرسکے تھے۔

سن 2002 سے سن 2016 تک سندھ کی گورنری پر فائض ڈاکٹرعشرت العباد ایک ایسی شخصیت ہیں جو سندھ کے کم عمر ترین اور اس منصب پر طویل ترین عرصے تک فائض رہنے والے گورنر تھے۔

یوں تو ڈاکٹر عشرت العباد اپنی خاموش طبع، نرم مزاجی، دھیمے لہجے اور دانشمندی کے حوالے سے جانے جاتے ہیں مگر انکی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ مشرف دور سے زرداری اور نوازشریف کے ادوار تک وہ اپنی جگہ بنائے رکھنے میں کامیاب رہے تھے، عمران خان تک ان کے گرویدہ رہے۔ انتہایہ کہ ان کا بھرم آج بھی قائم ہے۔یہ بات اہم ہے کہ وہ وطن واپسی کے لیے کس شبھ گھڑی کے منتظر ہیں؟

سوال یہ بھی ہے کہ آخربیرون ملک فعال مگر ملک میں غیرفعال گروپ کا مستقبل کیا ہے؟

یقیناً جن رہنماؤں پر سنگین مقدمات ہیں،اگر وہ وطن آکر سیاست کرنا چاہتے ہیں تو انہیں عدالتوں میں پیش ہونا پڑے گا۔ممکن ہے چند غبار زندگی میں کہیں نظرہی نہ آئیں مگر پاکستان میں ہر چند عشروں بعد ایک نئی سیاسی جماعت وجود میں آتی یا لائی جاتی ہے، اس جماعت میں سارے رہنما پیدا کرکے انکے بڑے ہونے کاانتظار نہیں کیا جاتا۔

کیا پتہ کل شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل، مصطفیٰ نواز کھوکھر بھی اپنی سیاسی جماعت بنانے کا سوچیں، اس جماعت کو کراچی اور حیدر آباد میں جانی پہچانی شخصیات کی ضرورت پڑی تو دبئی سے دو گھنٹے، امریکا اور کینیڈا سے بائیس گھنٹے کی پرواز ہی کا وقت لگے گا اور بارات تیار۔

کیا پتہ سندھ میں تیزی سے ترقیاتی کام کرنیوالی پیپلزپارٹی میں اس بات کا احساس جاگے کہ کراچی اور حیدر آباد میں مذہبی جماعتوں کا ووٹ مضبوط ہورہا ہے اور اسے توڑنے کے لیے ایم کیو ایم کے بیرون ملک مقیم غیر فعال رہنما اکثیر ثابت ہوسکتے ہیں۔ایم کیوایم کے رہنماؤں رضا ہارون،انیس ایڈوکیٹ، مزمل قریشی، وسیم قریشی، خواجہ سہیل منصور اور سیف یار خان کو پارٹی میں جگہ دیا جانا بظاہر اسی جانب قدم ہے۔

پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرنیوالوں کو یقین ہے کہ ایم کیوایم پاکستان یونہی چلتی رہی تو اگلے الیکشن میں اسکی مثال تمھاری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں کے مصداق ہوگی۔

بہت سے مفروضوں پر بات تو ہوگئی،اصل بات واضح ہونا باقی ہے کہ ایم کیوایم کے غیر فعال رہنما غیرفعال کیوں ہیں؟

اس نمائندے نے جب چند غیر فعال رہنماوں سے یہ بات جاننے کی کوشش کی تو کوئی ٹال گیا، کسی نے کہا پھر سہی۔ مگر جو لوگ ایم کیوایم کی سیاست پر نظر رکھتے ہیں،انہوں نے اس شعر میں ساری بات کہہ دی۔

دل کے پھپھولے جل اُٹھے سینے کے داغ سے

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کےچراغ سے

یہ آگ بجھانے کے لیے بیرون ملک مقیم کونسی غیرفعال شخصیت فعال ہوگی؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔