فیکٹ چیک: لاہور میں صرف پانچ پبلک لائبریریاں ہیں

لاہور کی آبادی کو ایک الیکٹرانک لائبریری سمیت پانچ پبلک لائبریریوں تک رسائی حاصل ہے۔

وسیع پیمانے پر آن لائن پوسٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پنجاب کے شہر لاہور میں حکومت کے تعاون سے چلنے والی پانچ لائبریریاں ہیں، جن میں سےصرف ایک عوام کے لیے قابل رسائی ہے۔ پوسٹس میں یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ پانچوں لائبریریاں تقسیم سے پہلے تعمیر کی گئی تھیں۔

دعویٰ جزوی طور پر درست ہے۔ لاہور میں واقعی صرف پانچ سرکاری لائبریریاں ہیں، لیکن 1947 میں تقسیم سے پہلے صرف دو ہی تعمیر کی گئی تھیں۔

دعویٰ

10مارچ کو ایک سوشل میڈیا صارف نے X، جو پہلے ٹوئٹر کے نام سے جانا جاتا تھا، پر لکھا کہ ”لاہور میں حکومت کی طرف سے صرف پانچ لائبریریاں ہیں، جن میں سے ہر ایک 1947 سے پہلے تعمیر کی گئی تھی، افسوس کی بات ہے کہ پنجاب پبلک لائبریری کے علاوہ کوئی بھی عام عوام کےلیے قابل رسائی نہیں ہے۔“

پوسٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ہندوستانی شہروں ممبئی اور دہلی میں بالترتیب 561 اور 250 لائبریریاں ہیں جب کہ امریکی ریاست نیویارک میں 756 لائبریریاں ہیں۔

اس پوسٹ کو اب تک 21 ہزار بار دیکھا جا چکا ہے اور تقریباً 200 سے زائد مرتبہ ری پوسٹ کیا گیا ہے۔

حقیقت

یہ درست ہے کہ 1کروڑ 30 لاکھ سے زائد آبادی والے شہر لاہور میں صرف پانچ پبلک لائبریریاں ہیں جن میں ایک الیکٹرانک لائبریری بھی شامل ہے۔ تاہم، ان میں سے صرف دو 1947 سے پہلے قائم کی گئی تھیں۔

پنجاب پبلک لائبریز کے ڈائریکٹر توفیق احمد کے مطابق ان پانچ میں سے تین لائبریریاں پنجاب حکومت کے زیر انتظام ہیں جن میں گورنمنٹ پنجاب پبلک لائبریری، قائداعظم لائبریری اور گورنمنٹ ماڈل ٹاؤن لائبریری شامل ہے۔

ای-لائبریری بھی صوبائی حکومت کے دائرہ اختیار میں آتی ہے اور اس لنک کے ذریعے روزانہ صبح 9 بجے سے رات 8 بجے تک عوام کے لیے قابل رسائی ہے۔

پانچویں پبلک لائبریری، دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری، وفاقی حکومت کے متروکہ وقف املاک بورڈ( Evacuee Trust) (Property Board کے زیر انتظام ہے، جس کی لائبریری کے ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر منیر خان نے تصدیق کی ہے۔

حکام نے مزید کہا کہ پانچ میں سےصرف دو لائبریریاں ملک کی تقسیم سے قبل بنائی گئی تھیں، 1884 میں گورنمنٹ پنجاب پبلک لائبریری اور 1908 میں دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری قائم کی گئی۔

شہر میں دیگر دو لائبریریاں 1980 کی دہائی میں قائم کی گئی تھیں جبکہ لاہور ای-لائبریری 2019 میں قائم کی گئی۔

اس کی تصدیق پنجاب حکومت کے آرکائیوز اینڈ لائبریری ونگ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر اعجاز حسین نے بھی کی۔

لائبریریوں تک رسائی کے بارے میں بات کرتے ہوئے، اعجازحسین نے وضاحت کی کہ قائداعظم لائبریری کے لئے اس کے ممبران کا گریجویٹ ہونا ضروری ہے۔ لیکن لاہور کی دوسری پبلک لائبریریوں کے لیے ایسا کوئی معیار نہیں ہے، جن تک کوئی بھی رسائی حاصل کر سکتا ہے۔

اضافی رپورٹنگ: فیاض حسین

ہمیں@GeoFactCheck پر فالو کریں۔

اگرآپ کو کسی بھی قسم کی غلطی کا پتہ چلے تو [email protected] پر ہم سے رابطہ کریں۔