فیکٹ چیک: نیوز گرافکس میں سپریم کورٹ کے ججوں سے منسوب جھوٹے بیانات دکھائے گئے ہیں

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے ریمارکس نہ تو جسٹس اطہر من اللہ نے اور نہ ہی جسٹس جمال خان مندوخیل نے دیے۔

سوشل میڈیا پر جیو نیوز سے منسوب گرافکس شیئر کیے جا رہے ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ 3 اپریل کو سپریم کورٹ میں ہونے والی عدالتی کاروائی کے دوران سپریم کورٹ کے ججوں نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور 9 مئی کے فسادات پر ریمارکس دیے ہیں۔

دعویٰ غلط ہے۔

گرافکس جعلی ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے ججوں نے ایسے کوئی ریمارکس نہیں دیے اور نہ ہی جیو نیوز نے ان جھوٹے بیانات کو نشر کیا۔

دعویٰ

3 اپریل کو جیو نیوز سے منسوب سپریم کورٹ کے ججوں کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کے لکھے گئے خط، جس میں پاکستان کی اعلیٰ انٹیلی جنس ایجنسی کی طرف سے عدالتی معاملات میں مداخلت کا الزام لگایا گیا تھا، کی سماعت کے دوران دیے گئے ریمارکس کے اسکرین شاٹس آن لائن اور واٹس ایپ گروپوں میں گردش کرنے لگے۔

جیو نیوز سے منسوب پہلے گرافک میں تحریر تھا کہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ”جس لڑکے نے جناح ہاؤس سے مور چرائے اس کی موت کا جھوٹا بیانیہ بنایا گیا۔“

فیکٹ چیک: نیوز گرافکس میں سپریم کورٹ کے ججوں سے منسوب جھوٹے بیانات دکھائے گئے ہیں

جبکہ دوسرے گرافک میں دعویٰ کیا گیا کہ جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کے دوران کہا ہے کہ عمران خان پر”قتل اور زہر دینے کا جھوٹا الزام لگایا گیا ہے۔“

فیکٹ چیک: نیوز گرافکس میں سپریم کورٹ کے ججوں سے منسوب جھوٹے بیانات دکھائے گئے ہیں

حقیقت

سپریم کورٹ کی 3 اپریل کی عدالتی کارروائی کو تمام دیگر نیوز چینلز کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کے آفیشل یوٹیوب چینل پر بھی براہ راست نشر کیا گیا۔

جیو فیکٹ چیک نے اس دن عدالت میں ہونے والی 1 گھنٹہ 30 منٹ کی مکمل سماعت کو سنا، اس دوران جسٹس اطہر من اللہ نے تین بار جب کہ جسٹس مندوخیل نے پانچ بار بات کی۔

لیکن نہ تو جسٹس اطہر من اللہ نے اور نہ ہی جسٹس جمال خان مندوخیل نے وہ ریمارکس دیے جو آن لائن گردش کرنے والے نیوز گرافکس میں درج ہیں۔

اس کے علاوہ نہ ہی جیو نیوز نے ایسے کوئی گرافکس نشر کئے۔

ان حقائق کی تصدیق جیو فیکٹ چیک نے 3 اپریل کو نیوز چینل کی کوریج کے ساتھ ساتھ چینل کے ترجمان سے بھی کی جنہوں نے گرافکس کو ”جعلی“ کہا۔

اضافی رپورٹنگ: ثمن امجد

ہمیں@GeoFactCheck پر فالو کریں۔

اگرآپ کو کسی بھی قسم کی غلطی کا پتہ چلے تو [email protected] پر ہم سے رابطہ کریں۔