بلاگ
Time 22 اپریل ، 2024

ایرانی صدر کےدورہ پاکستان سے وابستہ توقعات

سعودی وزیر خارجہ کے دورے کے فوری بعد ایرانی صدر کی آمد پاکستان کا بڑی حد تک نیوٹرل امیج اجاگر کرنے کا موقع بن گئی ہے، ساتھ ہی یہ دورہ مؤثر خارجہ پالیسی کے اظہار اور پاکستان کے تنہائی کا شکار ہونے کے تاثر کو زائل کرنے کی بھی علامت ہے۔

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی 22 سے 24 اپریل تک پاکستان کا دورہ کررہے ہیں جس میں وہ نہ صرف اسلام آباد میں صدر آصف علی زرداری، وزیراعظم شہباز شریف اور وزیرخارجہ اسحاق ڈار سے ملاقاتیں کریں گے بلکہ لاہور اور کراچی بھی جائیں گے جہاں وزراعلیٰ مریم نواز ،  سید مراد علی شاہ اور گورنربلیغ الرحمان اور کامران ٹیسوری سے ملاقاتیں کریں گے۔

ایران کے صدر ایسے وقت  میں پاکستان آئے ہیں جب سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان آل سعود کی قیادت میں اعلیٰ سطح کے وفد نے15  اور 16 اپریل کو پاکستان کا دورہ کیا ہے۔

سعودی وفد نے ایس آئی ایف سی کے تحت توانائی، معدنیات، زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی، تعمیرات، رینیوایبل انرجی، ہیومن ریسورس ڈیولپمنٹ اور برآمدی شعبوں میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی تجاویز پر بات کی ہے۔

ایران کو بھی سرمایہ کاری کی اس فضا سے فائدہ اٹھانا چاہیے ، پاکستان اور ایران کے درمیان ترجیحی تجارت کا معاہدہ سن دوہزار چھ سے نافذ ہے۔ پاکستان نے338 اور ایران نے 309اشیا پر رعایتیں دی ہیں تاہم آزاد تجارت کا معاہدہ تاحال نہیں کیا جاسکا ہے۔ سفارتی سطح پر کوشش کی جارہی ہے کہ صدر رئیسی کےدورے میں اس حوالے سےٹھوس پیشرفت ممکن بنائی جائے۔

دونوں ملکوں کے درمیان تین تجارتی گزرگاہیں ہیں، تفتان کے بعد رمدان گبد سرحدی گزرگاہ کا افتتاح چار برس پہلے اپریل میں کیا گیا تھا۔ یہ کراسنگ اس لحاظ سے اہم ہے کہ ایرانی بندرگاہ چاہ بہار سے 120 کلومیٹر اور گوادر سے  صرف70 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے،  اس طرح گوادرسے ایران تجارت کو فروغ دینے میں بہت معاون ثابت ہوسکتی ہے۔

تیسری بندرگاہ مند پشین کا افتتاح سن دوہزار اکیس میں اپریل ہی کے مہینے میں کیا گیا تھا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اپریل میں اس دورے کے موقع پر ایک اور مقام پر سرحد کھولنے کا وقت آن پہنچا ہے۔

صدر رئیسی اور وزیراعظم شہبازشریف پچھلے برس ایران سے سو میگاواٹ بجلی کی فراہمی کیلیے ٹرانسمیشن لائن کا افتتاح بھی کرچکے ہیں۔ایران نے بجلی کی فراہمی مزید بڑھانے کی پیشکش بھی کی ہے۔پاکستان کیلئے  یہ ڈیل اس لیے اہم ہے کہ رقم کی ادائیگی ڈالر میں کرنا نہیں پڑتی۔

دونوں ملک باہمی تجارت کا دائرہ انفارمیشن ٹیکنالوجی، زراعت، بجلی وتوانائی اور دیگر سیکٹرز میں مزید بڑھانا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں ایران کے سفیر ڈاکٹر رضا امیری مقدم کے بقول دونوں ملک ایک دوسرے کی ضروریات کا ستر فیصد پورا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ باہمی تجارت کاحجم ڈھائی ارب ڈالر سے بڑھا کر 10 ارب ڈالر کرنے کی کوشش ہے۔

تاہم باہمی تجارت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنکنگ چینلز کا نہ ہونا ہے، فی الوقت یہ تجارت بارٹر یا دیگر کرنسیز میں کی جارہی ہے،  اس ضمن میں ایران ، ترکیہ، ایران،  بحرین اور ایران عراق بنکنگ ماڈلز کو دیکھ کر حکمت عملی بنائی جائے تو تاجروں کو سہولت مل سکتی ہے۔

بنکنگ چینل ہو تو غیر قانونی تجارت کی بھی حوصلہ شکنی کی جاسکے گی جس سے چند افراد تو فائدہ اٹھاتے ہیں مگر حکومتیں نہیں۔دونوں ملکوں کے درمیان پروازوں کی تعداد میں اضافے اور نئی ائیرلائنز کو آپریشن کی اجازت دینے کا معاملہ بھی حل طلب ہے۔

یقینی طورپر کہا جاسکتا ہےکہ اس دورے میں پاکستان ایران گیس پائپ لائن مکمل کرنے کے معاملے پر بھی بات کی جائے گی۔ 1990 میں کیے گئے معاہدے کے تحت ایران کی جانب سے 2009 میں ایک ارب ڈالر مالیت سے بچھائی گئی پائپ لائن پاکستان کے دروازے پر ہے۔

سوال یہ ہے کہ پاکستان اپنی جانب پائپ لائن بچھا بھی لے تو اسے جوڑ کر ایران سے گیس خریدی کیسے جائے گی کیونکہ اس کے لیے امریکا کی اجازت درکار ہے۔ 10 برس پہلے ایک امریکی سفارتکار نے اس نمائندے کو بتایا تھا کہ اقتدار میں ڈیموکریٹس ہوں یا ری پبلکنز، ایران پاکستان گیس پائپ لائن کی مخالفت ترک نہیں کی جائے گی۔

روس اورجرمنی کے درمیان زیر سمندر نارڈ اسٹریم گیس پائپ لائن کو بم دھماکے سے تباہ کیا گیا ہو تو 27 سو کلومیٹر طویل ایران پاکستان گیس پائپ لائن کی سکیورٹی کس قدر نازک ہو گی، اسکا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔تاہم ایرانی حکام کو توقع ہے کہ صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف اس مسئلہ کا حل تلاش کرلیں گے۔

عالمی صورتحال کے تناظر میں اس دورے کی اہمیت اپنی جگہ،علاقائی سطح پر بھی اس دورے کو کئی لحاظ سے اہمیت حاصل ہے۔

دہشتگردی سے نمٹنا دونوں ملکوں کیلئے چیلنج ہے۔علاقے میں موجود دہشتگرد تنظیمیں اور افغانستان سے سراُٹھاتی داعش پاکستان اور ایران دونوں ہی کیلیے خطرہ ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ دونوں ملکوں نے تربت اور زاہدان میں لائزن آفیسر تعینات کرنے پر اتفاق کیا ہے تاکہ سکیورٹی اور انٹیلی جنس تعاون بڑھایا جاسکے۔امکان ہے کہ اس دورے میں دونوں ملکوں کے وزرا خارجہ کی سطح پر مشترکہ رابطہ میکانزم کو بھی حتمی شکل دیدی جائے گی۔

پچھلے ایک عشرے کےدوران پاک ایران فوجی روابط میں بھی بہتری آئی ہے۔ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ پہلے آرمی چیف تھے جنہوں نے ایران کا دورہ کیا تھا جس میں اسٹریٹیجک ماحول، دفاع، سکیورٹی اور اقتصادی تعاون پر بات کی گئی تھی۔

ایسے ہی قریبی روابط کی بدولت چنگاریوں کو بھڑکتی آگ میں تبدیل ہونے سے بچایا جاتا رہا ہے۔

اس سال کے اوائل میں ملک میں دہشتگردی کے پے درپے واقعات کے بعد ایران نے بلوچستان کے علاقے میں میزائل حملہ کیا تھا جس میں دہشتگرد تنظیم جیش العدل کو نشانہ بنانے کا دعوی کیا گیا تھا تاہم پاکستان نے واضح کیا تھا کہ اس حملے میں 2 بچے مارے گئے۔

 پاکستان میں دہشتگردی کرنیوالے بلوچ عسکریت پسندوں کیخلاف ایران میں فوراً ہی جوابی کارروائی کی گئی جس میں تہران نے تصدیق کی تھی کہ 9 غیر ملکی مارے گئے۔

اور ملک ہوتے تو ایسے حملے سنگین صورتحال اختیار کرلیتے تاہم دیرینہ تعلقات اور مختلف سطحوں پر قریبی روابط کام آئے اور سفارتی تعلق معمول پر آگیا۔صدر ابراہیم رئیسی کے اس دورے میں ایسا میکانزم تیار کیا جانا چاہیے کہ ان حملوں کی نوبت ہی نہ آئے۔

یہ وقت ہے کہ ایران کے بھارت سے قریبی تعلق کا بھی فائدہ اٹھایا جائے اور پاک بھارت تعلقات میں بہتری کی راہیں تلاش کی جائیں تاکہ خطے کے عوام سیاسی مفادات کی خاطر معاشی طور پر قربان ہونے سے بچائے جاسکیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔