ایک اندازے کے مطابق پاکستان 38 لاکھ افغانیوں کا میزبان ہے، جن میں 10 لاکھ 34 ہزار پی او آر کارڈز اور 6 لاکھ 90 ہزار ا ے سی سی کارڈز رکھتے ہیں۔
02 مئی ، 2024
نور محمد کبھی افغانستان نہیں گیا، اس کے والدنے 9 سال کی عمر میں افغانستان سے پاکستان ہجرت کی۔
پاکستان کے شہر لاہور میں پیدا ہونے اور پلنے بڑھنے والے نور محمد نے 2021 میں فاطمہ میموریل کالج سے میڈیکل کی تعلیم مکمل کی ہے۔
گزشتہ برس کے آخر میں نور محمد کی زندگی میں ایک ناقابل یقین موڑ آیا جب حکومت پاکستان نے تمام غیر ملکیوں کو ملک چھوڑنے یا ملک بدر کرنے کا حکم دیا۔ اگرچہ پہلے حکومت کا دعویٰ تھا کہ اس نے صرف دستاویزات نہ رکھنے والے مہاجرین کو نکالنے کا منصوبہ بنایا ہے جبکہ بعد میں یہ انکشاف ہوا کہ وہ نور محمد جیسے رجسٹرڈ مہاجرین کو بھی زبردستی نکالے گی جس کے پاس پاکستان میں سکونت اختیار کرنے کی مصدقہ دستاویز پروف آف رجسٹریشن (پی او آر) کارڈ ہے۔
نورمحمد نے Geo.tv سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ”ہمارے پاس ایک دستاویز ہے، ہم قانونی طور پر [پاکستان میں] رہ رہے ہیں۔ یہ دستاویز ہمیں [پاکستان] حکومت نے دی تھی، تو ہمیں کیوں جانے کو کہا جا رہا ہے؟“
خیبرپختونخوا میں افغان مہاجرین کے لیے حکومت کے زیر انتظام کمشنریٹ کے مطابق، پاکستان میں اندازاً 38 لاکھ افغان باشندے ہیں، جن میں سے 10 لاکھ 34 ہزار پی او آر کارڈز اور 6 لاکھ 90 ہزار افغان سٹیزن کارڈ (اے سی سی) کارڈز ہولڈرز ہیں جبکہ باقی افغان مہاجرین کے پاس باقاعدہ دستاویزات نہیں ہیں۔
باضابطہ طور پر پاکستان میں پی او آر کارڈ ہولڈرز کام کرنے، بینک اکاؤنٹس کھولنے، گھر کرائے پر لینے اور موبائل سم کارڈ حاصل کرنے کے حقدار ہیں۔ لیکن افغان مہاجرین نے Geo.tv سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ مراعات عملی طور پر ان کے لیے ناقابل رسائی ہیں۔
2021 میں گریجویشن کرنے والے نور محمد نے گزشتہ دو برسوں میں ملازمت کی تلاش کے لیے جدوجہد کی ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ”جب بھی میں نوکری کے لیے درخواست دیتا ہوں، وہ میرا پی او آر کارڈ دیکھ کر مجھے مسترد کر دیتے ہیں۔“
افغان مہاجرین کو پی او آر کارڈز سب سے پہلے 2007 میں حکومت پاکستان نے اپنے نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (NADRA) کے ذریعے جاری کیے تھے۔ اس کے بعد سے (Ministry of States and Frontier Regions) وزرات سیفران کے ذریعے ان کارڈز کی میعاد میں وقتاً فوقتاً توسیع کی جاتی رہی ہے۔
گزشتہ جمعہ کے روز وفاقی کابینہ نے ایک بار پھر کارڈز کی معیاد میں 30 جون تک توسیع کر دی ہے تاہم، کابینہ نے ملک چھوڑنے کی کوئی واضح ڈیڈ لائن دیے بغیر اعلان کیا ہے کہ ملک میں قانونی طور پر رہائش پذیر افغان باشندوں کو جلد ہی وطن واپس بھیج دیا جائے گا۔
حکومت کے حالیہ اعلانات نے نورمحمد اور اس جیسے دیگر مہاجرین کو ایک عجیب سی کشمکش میں مبتلا کر دیا ہے۔
حکومت کے حالیہ اعلانات نے نورمحمد اور ان جیسے دیگر مہاجرین کو ایک عجیب سی کشمکش میں مبتلا کر دیا ہے۔
ستمبر 2023 میں وزارت داخلہ کی طرف سے ایک محکمانہ دستاویز ”غیر قانونی غیر ملکیوں کی وطن واپسی کا منصوبہ“ کے عنوان سے جاری کیا گیا تھا، جس میں افغان مہاجرین کی مرحلہ وار وطن واپسی کی حکومتی پالیسی کو واضح کیا گیا ہے۔
وزارت داخلہ کے ترجمان قادر یار ٹوانہ نے فون پر Geo.tv کو بتایا کہ پہلا مرحلہ، جو کہ گزشتہ سال ستمبر میں شروع کیا گیا تھا۔ اس میں غیر قانونی اور غیر رجسٹرد مہاجرین کو ملک سے نکالا گیا ہے، جس کے نتیجے میں اب تک 7 لاکھ 20 ہزار افغان مہاجرین کی ’رضا کارانہ‘ اور جبری وطن واپسی ہوئی ہے۔
دوسرے مرحلے میں افغان سٹیزن کارڈ (ACC) ہولڈرز کی ملک سے واپسی شامل ہے، اے سی سی کارڈز 2017 میں پاکستان میں بغیر کاغذات کے رہنے والے افغان باشندوں کو جاری کیے گئے تھے۔ تیسرے اور آخری مرحلے میں پی او آر کارڈ ہولڈرز کی جبری وطن واپسی شامل ہے جو کہ اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ اتفاق رائے اور پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (UNHCR ) کنونشن کی تعمیل سے مشروط ہے۔
یہاں پر یہ بات قابل غور ہے کہ وزارت داخلہ کے جانب سے جاری کی گئی دستاویز، جو کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افراد کی ملک بدری کی مرحلہ وار تفصیلات کے حوالے سے ہے۔ اس میں ملک بدر ہونے والے افراد کے لیے ”جبری وطن واپسی“ اور ”ملک بدری “جیسے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جبکہ حکومت افغان مہاجرین کی وطن واپسی کےلیے”رضاکارانہ واپسی“ اور ”وطن واپسی“ جیسے الفاظ پر زور دیتی ہے۔
پاکستانی حکومت افغان مہاجرین کو افغانستان واپس بھیجنے کی اپنی بنائی گئی پالیسی کا دفاع کرنے کے لیے بارہا افغان شہریوں کو ملک میں تشدد میں اضافے کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے، جس میں ملک میں ہونے والے حالیہ خود کش دھماکے بھی شامل ہیں۔ تاہم افغانیوں کے ملک میں ہونے والے پرتشدد واقعات میں ملوث ہونے کے دعوؤں کی صداقت جاننے کے لیے ثبوت اور شواہد مانگے جانے کی درخواستوں پر سرکاری حکام کی جانب سے خاموشی اختیار کی گئی۔
گزشتہ برس دسمبر میں ان دعوؤں کی تصدیق کے لیے جیو فیکٹ چیک نے اس وقت کے وزیر داخلہ سرفراز بگٹی سے رابطہ کیا، لیکن انھوں نے اس پر بات کرنے کے لیے جیو فیکٹ چیک کے کسی بھی سوال کا جواب نہیں دیا۔
رواں ہفتے وزیر داخلہ محسن رضا نقوی نے بھی Geo.tv کی قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کی حیثیت کےحوالے سے بات کرنے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔
خیبرپختونخوا میں افغان مہاجرین کے لیے حکومت کے زیر انتظام کمشنریٹ کے ڈائریکٹر فضل ربی نے Geo.tv کو بتایا کہ وفاقی حکومت نے افغان مہاجرین کی ملک بدری کے دوسرے مرحلے کی کوئی واضح ڈیڈ لائن نہیں دی، لیکن اے سی سی ہولڈرز کی ملک بدری کا عمل ملک بھر میں شروع ہونے والا ہے۔
فضل ربی نے بتایا کہ ”[حکام] ابھی سروے کر رہے ہیں کہ اے سی سی ہولڈرز ملک میں کہاں رہتے ہیں اور وہ کتنے ہیں۔“
پنجاب میں کمشنریٹ برائے افغان مہاجرین کے کمشنر ارشد رانا نے یہ بھی کہا کہ اس سے قبل، دوسرے مرحلے کو 15 اپریل تک شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا” لیکن ہمیں ابھی تک [وفاقی حکومت کی طرف سے] کوئی منظوری نہیں ملی ہے۔“
جیسے جیسے فیصلے ابھی ہونا باقی ہیں پاکستان میں افغان پناہ گزینوں میں تناؤ اور بے چینی مسلسل بڑھ رہی ہے۔
ایک پی او آر کارڈ ہولڈر محمد خان نے Geo.tv کو بتایا کہ ”ہم بہت زیادہ دباؤ میں ہیں، میں ان دنوں بمشکل کام کرنے جا رہا ہوں، مجھے نہیں معلوم کہ کیا ہوگا یا حکومت کب ہمیں جانے کو کہے گی۔“
49 سالہ محمد خان اس وقت پاکستان آئے تھے جب وہ نابالغ تھے۔ گزشتہ چند برسوں سے وہ لاہور میں پولٹری فیڈ کا ایک چھوٹا سا کاروبار چلا رہے ہیں۔
محمد خان کا مزید کہنا تھا کہ ”حکومت کو ہمیں واضح طور پر بتانے کی ضرورت ہے کہ وہ ہمارے ساتھ کیا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، مجھے یہاں زندگی بسر کرنے میں کئی دہائیاں لگیں، اب کیا مجھے افغانستان میں اپنی زندگی دوبارہ شروع کرنی پڑے گی؟“
حکومتی عہدیداروں نے بھی Geo.tv سے بات کرتے ہوئے حکومت کی ملک بدری کی پالیسیوں کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا، یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ یہ سفارتی مشکلات اور سخت ردعمل کا باعث بن سکتی ہیں۔
ارشد رانا کا مزید کہنا تھا کہ” PoR کارڈ رکھنے والوں کو پناہ گزین کا درجہ حاصل ہے، اگر ہم انہیں ملک بدر کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو بین الاقوامی سطح پر ہمارے لیے بہت سے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں، مجھے نہیں معلوم کہ حکومت ایمانداری سے ایسا کرنے کا منصوبہ کیسے رکھتی ہے۔“
فضل ربی نے بھی یہی کہا کہ ”پہلے مرحلے میں [ملک بدری کے] ہم نے غیر دستاویزی اور غیر قانونی پناہ گزینوں کو واپس بھیجا، اس لیے [بین الاقوامی سطح پر] بہت کم دباؤ تھا، لیکن اب دباؤ پڑے گا۔“
گزشتہ برس کے آخر میں انسانی حقوق کے گروپوں نے بھی افغان مہاجرین کی بڑے پیمانے پر ملک بدری روکنے کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک درخواست جمع کرائی تھی، لیکن اس درخواست پر ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔