پاکستان

ہم سچ کیوں نہیں بولتے؟ عدلیہ میں مداخلت کو تسلیم کرنا چاہیے: جسٹس اطہر من اللہ

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں ہائیکورٹ کے 6 ججوں کے خط پر  ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے  دوران  جسٹس اطہر من اللہ نےکہا کہ ہم سچ کیوں نہیں بولتے؟ ہمیں عدلیہ میں  مداخلت کو  تسلیم کرنا  چاہیے۔

سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں کے خط پر ازخود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کی، عدالت میں اٹارنی جنرل اور مختلف بارز کے وکلا پیش ہوئے۔

دوران سماعت اٹارنی جنرل نے کہا کہ گزشتہ سماعت کا تحریری حکم نامہ ابھی نہیں ملا، حکومت کا جواب داخل کرنے کے لیےحکم نامہ وزیراعظم کو دکھانا ضروری ہے، اس پر چیف جسٹس نے عملے سے سوال کیا کہ کیا حکم نامے پر دستخط ہو گئے؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں ہوئے؟ عدالت نے کھلی عدالت میں حکم نامہ لکھوایا تھا، اٹارنی جنرل نے کہا آج حکم نامہ مل جائے تو حکومت کل تک اپنا جواب داخل کردےگی۔

دوران سماعت سپریم کورٹ بار  ایسوسی ایشن نے بھی عدالت میں اپنی تجاویز جمع کرائیں جس میں سپریم کورٹ بار کا کہنا تھا کہ بار عدلیہ کی آزادی پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرے گی، عدلیہ میں مداخلت کرنے والوں کے خلاف تحقیقات ہونی چاہیے۔

سپریم کورٹ بار کی تجاویز میں کہا گیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو کسی بھی قسم کی مداخلت پر توہین عدالت کی کارروائی کرنی چاہیے تھی، ہائی کورٹ کی جانب سے توہین عدالت کی کارروائی نہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔

دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے عدلیہ میں انٹیلی جنس اداروں کی مداخلت پر وفاقی حکومت کے جواب دینے کا آرڈر کا حصہ پڑھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیےکہ  تعجب ہو  رہا ہےکہ اتنے وکیل ہیں لیکن ایک پیج پر نہیں آسکتے، تعجب ہےکہ وکیل عدلیہ کی آزادی کے لیے بھی ایک پیج پر نہیں آسکتے، میں جمہوریت پر یقین رکھتا ہوں، پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار بڑی تنظیمیں ہیں، جب ہدف ایک ہے تو کہیں ایک ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ  6 ججز نے خط میں لکھا کہ مداخلت کا عمل جاری ہے اور  سب مان رہے ہیں کہ مداخلت ہو رہی ہے، ساری ہائی کورٹس نے اپنی رپورٹس میں سیاسی مقدمات پر سنگین باتوں کو  اجاگر کیا ہے اور  ایک ہائی کورٹ نے تو یہ کہا کہ یہ آئین کو سبوتاژ کیا گیا ہے، مداخلت تو ہورہی ہے لیکن حکومت کچھ نہیں کر رہی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ وہ اس دلیل سے اتفاق نہیں کرتے اور واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اگر ایسا ہے تو آپ کو یہاں نہیں بیٹھنا چاہیے،  ایسا کہنے والے جج کو یہاں بیٹھنےکے بجائےگھر چلے جانا چاہیے، عدالت کے پاس توہین عدالت کا اختیار ہوتا ہے۔

جس پر جسٹس اطہر نے کہا کہ آپ ماتحت عدلیہ کے جج سے وہ توقع رکھتے ہیں جو سپریم کورٹ کے جج نہیں کرسکتے ۔ ہم خوفزدہ کیوں ہیں؟ سچ کیوں نہیں بولتے؟ ہم نے 76 سال جھوٹ بولا ہے ، دو ہزار اٹھارہ انیس میں ہائی کورٹس کا سب سے بڑا چیلنج ان کے مسائل پر سپریم کورٹ کا خاموشی اختیار کرنا تھا ۔ دوہزار سترہ اٹھارہ میں ہائی کورٹس کے آزاد ججوں کو سپریم کورٹ کی ملی بھگت سے چیلنج کیا جارہا تھا ۔ یہ چھ ججوں کا خط ایک مسلسل عمل ہے جو نہ دھرنا فیصلے سے ختم ہوا نہ کسی اور اقدام سے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ یہاں انہیں مداخلت کرنی پڑے گی، آپ کو یہ کہنا چاہیےکہ آپ کو یہاں بیٹھنےکا حق نہیں۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ تحقیقات ہو یا نہ ہو؟ مجھے بار بار کہنا پڑ رہا ہے کہ آگے بڑھتے ہیں کیونکہ دیگر افراد بھی ہیں، میں سپریم جوڈیشل کونسل کا چیئرمین ہوں لیکن میں بطور خود سپریم جوڈیشل کونسل نہیں بلکہ سپریم جوڈیشل کونسل میں دیگر ممبران بھی ہیں۔ 

چیف جسٹس کے ریمارکس پر جسٹس اطہر نے کہا کہ میں نہیں کہہ رہا یہ بات اٹارنی جنرل صاحب نے بھی کہی ہے، میں صرف توہین عدالت پر فوکس کررہاہوں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم سب کو ماننا چاہیے انڈر ٹیکنگ دیں کہ وکلا کی مداخلت بھی روکی جائےگی۔

مزید خبریں :