12 مئی ، 2024
اسلام آباد: 9 مئی کے حوالے سے نگران حکومت کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ ایک منظم اور خطرناک حکمت عملی تھی جس کا مقصد نہ صرف پاکستانی فوج پر عمران خان کے سیاسی مطالبات کیلیے دبائو ڈالنا تھا بلکہ یہ ایک کھلی کوشش تھی کہ فوج کے اندر پی ٹی آئی کے حق میں بغاوت کرائی جائے۔
رپورٹ کے مطابق’ریاستی اداروں کے خلاف پہلے کے تشدد کا مضبوط جواب نہ ملنے پر پارٹی زیادہ بیباک ہوگئی تھی، فوجی تنصیبات پر سامنے سے حملے کرنے کا مقصد فوج کے مورال کو کمزور کرنا اور سیاسی ڈیل کےلیے دباؤ ڈالنا تھا، یہ ایک کھلی اور غلطی پر مبنی کوشش تھی جس کا مقصد مسلح افواج کے اندر اپنے حق میں ڈیل کرانا تھا۔
اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’9 مئی 2023 کے واقعات نہ تو اکادکا تھے اور نہ ہی بے ساختہ، وہ ایک منظم اور خطرناک حکمت عملی کا حصہ تھا جس کا مقصد مسٹر خان کی ڈیمانڈز منوانے کیلیے ریاستی اداروں پر دائو ڈالنا تھا۔‘‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 9 مئی 2023 ایک بیانیے کا عروج تھا جو کہ ایک شخصی فرقے کے گرد بنا گیا تھا اور ایک حکمت عملی کے تحت ان کے مخالفین کے خلاف تشدد کو قومی خدمت کے طور پر جواز فراہم کیا گیا۔
نگران حکومت کی کابینہ کمیٹی جس نے اس معاملے کی تحقیقات کیں اس نے ’ گہرےدرد‘ کے ساتھ نوٹ کیا کہ ایک مقبول سیاسی جماعت اپنے انتخاب کے بعد اس قسم کے منصوبوں سے قومی مفادات کو نقصان پہنچائے گی‘۔
آئین لوگوں کے مفادات کو آگے بڑھانے کےلیے سیاسی اجتماع کے حق کو عوام کے مفاد کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کرنے کی ضمانت دیتا ہے نہ کہ ریاستی اداروں اور قومی مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے۔
رپورٹ کے مطابق ’ مسٹر خان بہت عرصے سے فوجی اسٹیبلشمنٹ کو اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار بھی تصور کرتے رہے ہیں اور وہ صرف اسی ایک ادارے کے ساتھ مذاکرات پر تیار بھی تھے، مسٹر خان نے بارہا دیگر سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کے حوالے سے اپنی تحقیر آمیز اندا مین بات بھی کی اور وہ پارلیمنٹ مین ان سے بات کرنے سے مستقل بات کرنے سے بھی انکار کر تے رہے۔
انہوں نے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سیاسی حل نکالنے کےلیے مذاکرات کی خواہش کا اظہار بھی کیا ہے، مسٹر خان نے فوج کے آئینی کردار کی عزت کرنے سے انکار کردیا تھا جو ان سے غیرسیاسی رہنے کا تقاضا کرتا ہے۔
انہوں نے مسلح فوج کے ساتھ فعال انگیجمنٹ کی خواہش کا اظہار کرکے اس (فوج) کے آئینی مینڈیٹ کی خلاف ورز ی کی، جب مسلح افواج نے انکار کیا سیاست میں گھسیٹے جانے سے تو مسٹر خان اور ان کی جماعت نے ایک ایسی فضا تخلیق کردی جس سے فوج پر دباؤ پڑ سکے کہ وہ ان کے ساتھ مذاکرات کرے، اسے مقامی اور غیر ملکی میڈیا پلیٹ فارمز کو استعمال کرتے ہوئے مضبوط کیا گیا۔
مسٹر خان نے کسی بھی مرحلے پر نہ تو 9 مئی کے واقعات سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے اور نہ ہی ان کی مذمت کی بلکہ اس کے بجائے انہوں نے عوام اور مسلح فوج کے مابین تقسیم کو وسیع کرنے کےلیے حقائق کو توڑا مروڑا ۔انہوں نے ان واقعات کی پاکستان کی قومی سیکورٹی پراثرات کو بھی کھلے عام تسلیم کیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’ایک حکمت عملی تشکیل دی گئی جس کے تحت عوامی طاقت ( اسٹریٹ پاور) سے دفاعی تنصیبات پر حملے کیے گئے، اس سے پی ٹی آئی کے سپورٹرز کو موقع ملا کہ وہ عدم اعتماد کی تحریک پر مسلح فوج کے خلاف اپنا غصہ نکال سکیں۔
اس حکمت عملی کی بنیاد ایک سادہ مفروضہ تھا کہ غیر مسلح احتجاجی مظاہرین اور فوج کے مابین تصادم سے فوج مخالف جذبات جنم لیں گے اور اس طرح عوام اور مسلح فوج کے مابین خلیج وسیع ہوپائے گی۔ ایسی خلیج سے فوج کو مجبور کیا جاسکے گا کہ وہ سیاسی طور پر ملوث ہو غالباً خان اپنے اپ کو ایسی خلیج پاٹنے کے لیے ایک نجات دہندہ کے طور پر دیکھتے تھے۔