Time 15 مئی ، 2024
بلاگ

کیا ایم کیوایم سربراہ کھوبیٹھی؟

فوٹو: فائل
فوٹو: فائل

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان 1990 کے مہاجر قومی موومنٹ تنظیمی ڈھانچے کی طرف لوٹ آئی ہے تاہم ایم کیوایم کے کئی فعال اور غیرفعال رہنماؤں کی جانب سے نئے سیٹ اپ کو 'پارٹی آئین سےبراہ راست متصادم ، غیرقانونی اور ایم کیوایم کو تباہی سے دوچار کرنے کے دہانے پر پہنچانے کے مترادف' قرار دیا جارہا ہے۔

ایک رہنما کے نزدیک 'خالد مقبول صدیقی کو ایم کیوایم کا چیئرمین بنائے جانے کا اعلان محض غیرسرکاری، غیرحتمی نتیجہ ہے،اس سے زیادہ کچھ نہیں۔'ازراہ تفنن انہوں نے کہا کہ 'فارم 45 ہی نہیں فارم 47 میں بھی خالد مقبول صدیقی ایم کیوایم کے چیئرمین نہیں اور جسے شک ہے وہ الیکشن کمیشن سے پوچھ لے۔'

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ان رہنما نے کہا کہ 'ایم کیوایم کو آئینی لحاظ سے دیکھیں تو اس وقت اس کا کوئی سربراہ نہیں۔ خالد مقبول صدیقی آئینی طورپر کنوینر تھے مگر انہوں نے خود کو  غیرقانونی طور پر چیئرمین بنا کر  اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی مارلی ہے اور خود کو کنوینر شپ سے بھی محروم کردیا ہے۔'

ایم کیوایم پاکستان کی مرکزی ایڈہاک کمیٹی نے اتوار کو اعلان کیا تھا کہ پارٹی کے کنوینر خالد مقبول صدیقی کواب چیئرمین منتخب کرلیا گیا ہے۔

پارٹی کی جانب سے نئے تنظیمی سیٹ اپ کی وجہ تو نہیں بتائی گئی تاہم ترجمان کی جانب سے اتنا ضرور کہا گیا کہ خالد مقبول صدیقی کی قیادت میں ایڈہاک مرکزی کمیٹی کا اجلاس پاکستان ہاوس میں ہوا۔ اجلاس میں مصطفٰی کمال، ڈاکٹرفاروق ستار، نسرین جلیل، انیس قائمخانی، فیصل سبزواری، امین الحق، رضوان بابر اور دیگر موجود تھے۔

تاہم ایم کیوایم کے پاکستان میں ایک رہنما نے بتایا کہ اجلاس میں صرف 4 رہنماؤں نے شرکت جن میں خالد مقبول صدیقی، مصطفٰی کمال، فاروق ستار اور فیصل سبزواری تھے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ انیس قائم خانی بیرون ملک تھے، اس لیے ان کے بہ نفس نفیس موجود ہونے کا سوال ہی نہیں۔ بقول ان کے گورنر سندھ محمد کامران خان ٹیسوری کو بھی اس میٹنگ کی دعوت دی گئی تھی مگر انہوں نے بھی شرکت سے گریز کیا۔

انہی رہنما نے اس بات پر حیرت ظاہر کی کہ مصطفٰی کمال، فاروق ستار اور فیصل سبزواری تو خود کنوینر بننے کے خواہش مند رہے ہیں، ایسی کیا مشکل ہوئی کہ انہوں نے اپنی خواہشات قربان کرکے خالد مقبول صدیقی ہی کو چیئرمین بنالیا؟

یہ سب اپنی جگہ، ایم کیوایم ترجمان کی جانب سے یہ بھی وضاحت کی گئی کہ تنظیمی اور سیاسی امور  پر معاونت کے لیے اعلیٰ سطح پر مرکزی کونسل بنانےکا بھی فیصلہ کیا گیا ہے، جس کے اراکین کے ناموں کا جلد اعلان کردیا جائےگا۔

ایک  رہنما نے بتایا کہ جس طرح فیصلے کابینہ کرتی ہے مگر معاملات صوبائی اورقومی اسمبلیوں میں بحث کےلیے لائے جاتے ہیں تو اسی طرح یہاں بھی فیصلے چند افراد کریں گے،تنظیمی ڈھانچہ صرف بحث مباحثے اور  پارٹی رہنماوں کو 'فیل گُڈ اینڈ پاورفُل' تصور کرانے کی کوشش ہے۔

قانونی امور پر دست رس رکھنے والے ایم کیوایم کے ایک کم فعال رہنما نے نئے تنظیمی ڈھانچے کو پارٹی کے آئین کی یکسر خلاف ورزی قرار دیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ حالیہ فیصلے کے تباہ کن اثرات ہوسکتے ہیں۔

قانونی موشگافیاں بتاتے ہوئے کم فعال رہنما نے کہا کہ 'اگراس وقت ایم کیوایم کے اراکین قومی وصوبائی اسمبلی کسی دوسری سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرلیں تواسے چیلنج کون کرے گا؟ اگر خالد مقبول صدیقی بطور چیئرمین ایم کیوایم الیکشن کمیشن میں اس رکن کیخلاف جائیں گے تو منحرف رکن اُلٹا خالد مقبول صدیقی ہی کی حیثیت کو چیلنج کردےگا اور یہ صورتحال پارٹی کو نئے بحران سے دوچار کردے گی۔'

اسی نمائندے نے اس سے پہلے رابطہ کمیٹی توڑے جانے کی اندرکی کہانی بتائی تھی جس میں ایک غیرفعال رہنما کے حوالے سے انکشاف کیا گیا تھا کہ ایڈہاک کمیٹی کی قانونی حیثیت ہی نہیں۔نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ان غیرفعال رہ نما نے کہا تھا کہ 'رابطہ کمیٹی توڑی ہی غلط گئی تھی۔

غیرفعال رہنما نے بتایا تھا کہ محض ایک اجلاس ہوا تھا جس میں مصطفٰی کمال اور گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی آڈیو لیکس پر بات کی گئی، فرقان اطیب نے کہا کہ آڈیو لیک ہوئی ہے تو رابطہ کمیٹی توڑ دی جائے۔ اس پر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ رابطہ کمیٹی توڑدی گئی اور وہ یہ کہہ کر اٹھ کر چلے گئے تھے۔

پارٹی آئین کا حوالہ دیتے ہوئے ان غیرفعال ر ہنما نے کہا کہ  'طریقہ کار یہ ہے کہ رابطہ کمیٹی توڑنے کے لیے پہلے نوٹس آویزاں کیا جاتا ہے، پھر جنرل ورکرز اجلاس ہوتا ہے جس کے بعد کنوینر رابطہ کمیٹی سے اجازت لیتا ہے اور بعد میں نئی رابطہ کمیٹی کاانتخاب کیا جاتا ہے، اس کے بعد الیکشن کمیشن کو تازہ صورتحال سے آگاہ کردیا جاتا ہے'۔

الیکشن کمیشن ذرائع کے مطابق پارٹی رہنماؤں کی جو فہرست الیکشن کمیشن کے پاس ہے اس میں ایم کیوایم پاکستان کے کنوینر خالدمقبول صدیقی ہیں، سینئر ڈپٹی کنوینر عامر خان، ڈپٹی کنوینرز وسیم اختر، نسرین جلیل، کنور نوید مرحوم اور کیف الوری ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ چیئرمین کا عہدہ بحال کیے جانے کی خبرایم کیوایم پاکستان کی ویب سائٹ پر موجود نہیں، حد تو یہ کہ رابطہ کمیٹی توڑے جانے کی خبر بھی اپ ڈیٹ نہیں کی گئی۔

جو فہرست ایم کیوایم پاکستان کی ویب سائٹ پر ہے اس میں خالد مقبول صدیقی تاحال کنوینر ہیں جب کہ 4 سینئر ڈپٹی کنوینرز مصطفٰی کمال، ڈاکٹر فاروق ستار، عامر خان اور نسرین جلیل ہیں۔ ساتھ ہی 4 ڈپٹی کنوینرز میں انیس قائم خانی، وسیم اختر، خواجہ اظہارالحسن ایڈووکیٹ اور عبدالوسیم ہیں۔ اعزازی ڈپٹی کنوینر کنور نوید جمیل مرحوم ہیں۔

ماضی میں ایک اہم عہدے پر کام کرنیوالے ایم کیوایم کے موجودہ غیر فعال ر ہنما نے کہا کہ 'نئی صورتحال میں خالد مقبول صدیقی چیئرمین بنے ہیں تو وائس چیئرمین کے عہدے پر مصطفٰی کمال اور فاروق ستار کو لا کر تینوں گروپوں کو ایڈ جسٹ کرنے کی کوشش کی جائے گی'۔

ایک اور اہم غیر فعال رہنما نے کہا کہ اس ڈھانچے پر پچھلے 15 روز سے کام جاری تھا۔ ممکن ہے کہ تنظیمی ڈھانچے میں مزید تبدیلی لائی جائے اور پارٹی میں صدر اور نائب صدر کے عہدے بھی قائم کیے جائیں۔ اس طرح مصطفی کمال اور فاروق ستار کو بہترطورپر ایڈجسٹ کیا جاسکےگا۔

انہی رہنما نے مرکزی کونسل کے حوالے سے بتایا کہ چیئرمین اس کونسل کا رکن بھی ہوگا۔

ایم کیوایم کی تاریخ سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ متحدہ قومی موومنٹ میں تبدیل ہونے سے پہلے جو مہاجر قومی موومنٹ 1980 کی دہائی میں قائم کی گئی تھی، اس کے پہلے چیئرمین عظیم احمد طارق تھے جنہیں 1993 میں انہی کے گھر میں گھس کر انتہائی بہیمانہ انداز سے قتل کردیا گیا تھا۔

اس دور میں رابطہ کمیٹی کا وجود نہ تھا بلکہ مہاجر قومی موومنٹ مرکزی کمیٹی کے تحت کام کرتی تھی۔1992 میں فوجی آپریشن کےدوران چھاپے پڑنے شروع ہوئے تو بانی ایم کیوایم الطاف حسین نے مرکزی کمیٹی کو توڑ کر رابطہ کمیٹی بنادی تھی۔

الطاف حسین چونکہ خود لندن میں تھے اور انہیں خدشہ تھا کہ تنظیمی امور کہیں ہاتھ سے نہ نکل جائیں اس لیے انہوں نے ابتدا میں یہ طے کیا تھا کہ رابطہ کمیٹی کے 10 اراکین پاکستان سے جبکہ 20 اراکین برطانیہ میں موجود قیادت سے ہوں، فیصلے دو تہائی اکثریت  سے کیے جائیں تاکہ ایم کیوایم پر الطاف حسین کا کنٹرول قائم رہے۔

یہی رابطہ کمیٹی بعد میں ایم کیوایم کے رہنماوں کو ایڈجسٹ کرنے کا اچھا ذریعہ ثابت ہوتی رہی۔حسب ضرورت اراکین کی تعداد بڑھائی جاتی رہی اور ایک وقت میں رابطہ کمیٹی کے اراکین کی تعداد 85 کے لگ بھگ کردی گئی تھی۔ جو ایم کیوایم کے ایم این ایز اور ایم پی ایز کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ تھے۔

غیرفعال رہنما کے مطابق ایم کیوایم کی رابطہ کمیٹی کو توڑنے کا مقصد 'پارٹی پر مخصوص افراد کا اثربڑھانا اور ماضی میں انتہائی فعال بعض شخصیات کو پس منظر میں دھکیلنا تھا۔نیا تنظیمی ڈھانچہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے اور غیرآئینی مرکزی ایڈہاک کمیٹی کے کسی فیصلے کی قانونی حیثیت نہیں۔'

انہی رہنما کے مطابق ایک اہم عہدے پرفائزسابق قانون داں کافی پہلے ایم کیوایم رہنماؤں پر  واضح کرچکے ہیں کہ پارٹی کے 'بعض بنیادی اقدامات ہی قانون سے متصادم ہیں۔'

ایک اور غیرفعال رہنما نے کہا کہ 'اگر پی ٹی آئی انٹراپارٹی الیکشن کا معاملہ اکبر ایس بابر الیکشن کمیشن میں اُٹھا سکتے ہیں اور جون 2022 سے ابتک انہیں قبول نہیں کیا گیا تو ایم کیوایم کا بھی کوئی بابر بادشاہ نئے تنظیمی ڈھانچے کیخلاف الیکشن کمیشن سے رجوع کرسکتا ہے کیونکہ رابطہ کمیٹی ہی انٹرا پارٹی الیکشن سے وجود میں آئی تھی، مرکزی کمیٹی نہیں۔یہ پوری عمارت ریت کی دیوار ہے جوڈھیر ہونے میں دیر نہیں لگے گی'


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔