Time 16 مئی ، 2024
بلاگ

ایم کیو ایم کے اہم عہدوں کا کیا ہوگا، پارٹی الیکشن کب ؟

فوٹو: فائل
فوٹو: فائل

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیوایم) پاکستان نے پارٹی چیئرمین کے انتخابات کے بعد دیگر اہم عہدوں  پر  بھی جلد انتخاب کا عندیہ  دے دیا ہے، ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا ہے کہ پارٹی الیکشن کب ہوں گے۔

ایم کیو ایم پاکستان کے ایک اہم رہنما  اور سابق وفاقی وزیر امین الحق نے حالیہ پیشرفت پر اس نمائندے کو بتایا کہ 10 رکنی ایڈہاک مرکزی کمیٹی نے انتہائی غوروخوض کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ 1984 سے 1992 کی صورتحال پرتیزی سے واپس لوٹا جائے۔

18 مارچ 1984کو جب ایم کیوایم بنائی گئی تھی تو اس وقت چیئرمین، وائس چیئرمین، جنرل سیکرٹری ، سیکرٹری انفارمیشن، سیکرٹری فنانس اور  تین جوائنٹ سیکرٹری سمیت دیگر عہدے بھی ہوا کرتے تھے۔

امین الحق نےکہا کہ چونکہ خالد مقبول صدیقی کی قیادت پر تمام ہی پارٹی رہنما متفق ہیں، اس لیے سب سے پہلا اعلان چیئرمین کا کیا گیا۔

ایم کیوایم کے انتہائی فعال رہنما نے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پر مستقبل کے حوالے سے بتایا کہ ایڈہاک کمیٹی تکنیکی طورپر ختم ہوچکی، اس کمیٹی کے تمام اراکین کو اب مرکزی کمیٹی کی رکنیت کا درجہ حاصل ہے اور  یہ دس رکنی کمیٹی آئندہ  دس سے بارہ روز میں مرکزی کمیٹی میں مزید چند شخصیات کو شامل کرے گی۔ عین ممکن ہے کہ ماضی کی طرح اس بار بھی مرکزی کمیٹی بارہ یا تیرہ اراکین پرمشتمل ہو  اور دو  وائس چیئرمین بنائے جائیں۔

انہوں نے اس بات کی سختی سے تردید کی کہ چیئرمین کے بعد صدر  یا نائب صدر کا سیٹ اپ  بنےگا یا اس پر غور کیا جا رہا ہے۔

ایم کیوایم رہنما نے اس بات کا بھی دفاع کیا کہ رابطہ کمیٹی صحیح  توڑی گئی، مرکزی ایڈہاک کمیٹی قانونی تھی اور  اب نا صرف مرکزی کمیٹی بلکہ چیئرمین کی بھی آئینی، قانونی اور اخلاقی حیثیت مسلم ہے،کہیں کوئی قانونی خلاف ورزی نہیں۔

جب انہیں یاد دلایا گیا کہ آپ ہی کے جماعت کے اکثر غیرفعال رہنما کہتے ہیں کہ رابطہ کمیٹی توڑنے، ایڈہاک کمیٹی بنانے ، چیئرمین کے چناؤ  اور  ایڈہاک کمیٹی کو مرکزی کمیٹی میں تبدیل کرنے میں پارٹی کا آئین پامال کیا گیا کیونکہ پہلا فیصلہ ہی غلط بنیاد پر رکھا گیا تھا تو ایم کیوایم کے فعال رہنما نے قانونی نکتہ اٹھایا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایم کیوایم کے آئین میں یہ بات نہیں کہ رابطہ کمیٹی کے فیصلوں کی توثیق بانی ایم کیوایم الطاف حسین کریں گے، آئین میں درج الفاظ صرف یہ ہیں کہ رابطہ کمیٹی کے فیصلوں کو بانی ایم کیوایم الطاف حسین کے سامنے پیش کیا جائےگا۔اسی باریک نکتے کی وجہ سے قانونی طورپر توثیق لازم نہیں۔

ان رہنما نے اتنا ضرور کہا کہ پارٹی کا جو آئین تھا وہ چلا  آرہا ہے، ممکن ہے آگے چل کر جنرل ورکرز  اجلاس بلایا جائے۔ انہوں نے امکان ظاہر کیا کہ ایم کیوایم  پاکستان کے پارٹی الیکشن اکتوبر  یا نومبر  میں کرائے جائیں گےجس میں باقی معاملات بھی طے کرلیے جائیں گے۔

اس سوال پر کہ ایک اہم فعال رہنما کا دعویٰ ہے کہ چیئرمین کے انتخاب سے متعلق اتوار کو ہوئی میٹنگ میں صرف چارلوگوں نے شرکت کی تھی اور انیس قائمخانی ملک میں نہ ہونے کی وجہ  سے موجود نہیں تھے۔ میٹنگ میں شرکت کرنے والے ایم کیوایم کے ایک رہنما نے کہا کہ یہ فیصلے تین روز تک جاری اجلاس میں کیےگئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پہلا اجلاس جمعےکو  تین بجے سہ پہر  ہوا تھا جس میں انیس قائمخانی بھی موجود تھے۔ اس سوال پر کہ اتوار کو وہ بیرون ملک تھے اور اسی لیے شرکت نہیں کرسکے تھے۔  ایم کیوایم رہنما نے دعویٰ کیا کہ قائمخانی صاحب تینوں روز  اجلاس میں شریک ہوئے تھے اور  یہ بھی کہ قیادت سونپے جانے سے متعلق چار نہیں تمام اراکین نے اجلاس میں متفقہ فیصلہ کیا ہے۔

اس نمایئندے نے انیس قائمخانی سے رابطے کی کوشش کی تو رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے تینوں روز اجلاس میں ان کی موجودگی سے متعلق تصدیق یا تردید نہیں کی جاسکی۔

غیر فعال رہنماؤں کی جانب سے فعال رہنماؤں پر تنقید کا جواب دیتے ہوئے تینوں روز میٹنگ میں شریک ایم کیوایم کے ایک فعال  رہنما  نے سوال اٹھایا کہ  پہلے رابطہ کمیٹی اسی رکنی بھی ہوا کرتی تھی مگر کچھ لوگ ایسے تھے جو ایک ماہ بعد تو کوئی چالیس روز بعد چلہ کاٹنے آتا تھا تو آخر ایسے افراد کا کیا کیا جاتا؟

غیرفعال رہنماؤں کو مخالفین کے درجے میں ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ایم کیوایم پاکستان ہی کو سیاسی جماعت تسلیم کیا ہے، فاروق ستار عدالت میں گئے تب  بھی فیصلہ ایم کیوایم پاکستان ہی کے حق میں آیا اور جب ایم کیوایم لندن نے کوشش کی تو لندن ہائی کورٹ نے بھی ایم کیوایم پاکستان ہی کے حق میں فیصلہ سنایا۔

اقدامات کی آئینی حیثیت پر غیرفعال رہنماؤں کو  جواب دیتے ہوئے اسی ضمن میں امین الحق نے کہا کہ برطانوی عدالت کے جج کلائیو جونز  فیصلے میں دوٹوک انداز  سے واضح کرچکے ہیں کہ بانی ایم کیوایم الطاف حسین اگست 2016 کی تقریر کے بعد مستعفی ہوچکے، ایم کیوایم پاکستان ہی لندن میں اثاثوں کی حقیقی طور پر بینیفشری ہے جو کہ اس وقت الطاف حسین کے قبضے میں ہیں۔ اعتراض کرنے والے کچھ بھی کہیں، ایم کیوایم پاکستان تمام فیصلے جمہوری ، قانونی اورآئینی روایات کو مدنظر رکھ کر ہی کررہی ہے۔

اجلاس میں موجود ایک اور فعال رہنما نے اس امکان کو مسکرا کر مسترد کردیا کہ ایم کیوایم کا کوئی ایم این اے یا ایم پی اے کسی دوسری پارٹی میں چلا جائے تو اسے روکا نہیں جاسکتا۔

انہوں نے کہا کہ مخالفین تو ہر قسم کی باتیں کرتے ہیں مگر حقیقت یہ ہےکہ پہلے قانونی تقاضے مکمل کیے گئے ہیں اور اسی کے تناظر  میں معاملات آگے بڑھائے جارہے ہیں۔آئینی لحاظ سے ایم کیوایم کا سربراہ موجود ہے اور جب دیگر عہدوں پر انتخاب کا عمل مکمل ہوگا  تو پارٹی پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط بن کر ابھرے گی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔