17 مئی ، 2024
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سینیٹر فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس پر ازخود نوٹس کی سماعت کی جس دوران چیف جسٹس نے پریس کانفرنس کی تفصیلات طلب کیں۔
دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان سپریم کورٹ میں پیش ہوئے، چیف جسٹس نے ان سے سوال کیا آپ نے پریس کانفرنس سنی ہے؟ کیا پریس کانفرنس توہین آمیز ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جو میں نے سنی ہے اس میں الفاظ میوٹ تھے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ میرے خلاف اس سے زیادہ گفتگو ہوئی ہے لیکن نظرانداز کیا، نظرانداز کرنے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سوچا کہ ہم بھی تقریر کرلیں، اگر برا کیا ہے تو نام لےکر کہیں ادارے کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دینگے، ادارے عوام کے ہوتے ہیں، اداروں کو بدنام کرنا ملک کی خدمت نہیں، آزادی اظہار اور توہین عدالت سے متعلق آئین و قانون پڑھیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پریس کلب جاکر کانفرنس کی، آپ پارلیمان میں بات کرسکتے تھے، ایسا لگتا ہے جیسے کسی خاص مقصد کے تحت یہ کیا گیا، ایک کے بعد ایک پریس کانفرنس کی، اس کے بعد مصطفیٰ کمال بھی بولے، ذوالفقار علی بھٹو کیس کا حوالہ دیا گیا، ذوالفقار بھٹو کیس میں ہم نے اپنی اصلاح کی، آپ بھی تو کچھ کریں، اگر اصلاح کا طریقہ کار ہے تو رجسٹرار یا مجھے لکھ کر دیں ہم بہتری لائیں گے، یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ ادارے کےخلاف چڑھ دوڑیں،اس سےعدلیہ پر اعتماد ختم ہوگا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کسی شخص پر تنقید کی جا سکتی ہے لیکن بحیثیت ادارہ ایسے رویےکی اجازت نہیں دی جائے گی۔
جسٹس قاضی فائز کا کہنا تھا کہ مارشل لاء کی توثیق کرنے والوں کا کبھی دفاع نہیں کروں گا، اگر میں نے کچھ غلط کیا ہے تو اس کی سزا دیگر ججز کو نہیں دی جا سکتی، بندوق اٹھانے والا سب سےکمزور ہوتا ہےکیونکہ اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہوتا، دوسرے درجے کا کمزور گالی دینے والا ہوتا ہے، مہذب معاشروں میں کوئی ایسی بات نہیں کرتا اس لیے وہاں توہین عدالت کے نوٹس نہیں ہوتے، چیخ و پکار اور ڈرامے کرنے کی کیا ضرورت ہے، تعمیری تنقید ضرور کریں، فیصل واوڈا کے بعد مصطفیٰ کمال بھی سامنے آگئے، دونوں ہی افراد پارلیمنٹ کے ارکان ہیں، ایوان میں بولتے، ایسی گفتگو کرنے کیلئے پریس کلب کا ہی انتخاب کیوں کیا؟
عدالت نے فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔
عدالت نے کہا کہ 2 ہفتے میں وضاحت دیں کیوں نہ ان کے خلاف توہین عدالت کی کارورائی کی جائے جب کہ عدالت نے مزید سماعت 5 جون تک ملتوی کردی۔
ازخود نوٹس کے بعد فیصل واوڈا کا بیان
دوسری جانب اپنے بیان میں فیصل واوڈا نے کہا کہ میں نے جو پریس کانفرنس میں کہا اس موقف پر کھڑا ہوں، اپنی عزت پر گردن کٹوادوں گا پیچھے نہیں ہٹوں گا، جو ہماری پگڑی اچھالے گا ہم اس کی پگڑی کا فٹبال بنادیں گے، مجھے کوئی گالی دے گا جواب میں دو گالیاں دوں گا۔
انہوں نے کہا کہ میں نے کسی جج کا نام لے کر بات نہیں کی، رؤف حسن ججوں کو ٹاؤٹ کہتے ہیں اس پر کوئی نوٹس نہیں، عطا تارڑ، مصطفیٰ کمال، طلال چوہدری کو نہیں بلایا مجھے سنگل آؤٹ کرکے بلایا گیا، اگر آپ مجھ پر پراکسی کا الزام لگائیں گے تو ثبوت بھی دینا پڑیں گے۔
فیصل واوڈا نے کہا کہ میں نے کسی پر الزام نہیں لگایا، اگر آپ نے میری پگڑی اچھالی ہے تو میں ڈبل اچھالوں گا، غلطی پر کسی سے بھی معافی مانگنی پڑی تو سرعام مانگ لوں گا، مجھے بانی پی ٹی آئی اور پارٹی نے پریشر ککر میں ڈال دیا تھا میں نے کہا معافی نہیں مانگوں گا، پریشر ککر میں تھا لیکن اپنے موقف پر کھڑا رہا۔
انہوں نے کہا کہ میں شکر ادا کر رہا ہوں کہ سپریم کورٹ جانے کا موقع ملا ہے، میں ایک ایماندار چیف جسٹس کے سامنے پیش ہو رہا ہوں، میں نے براہ راست کسی پر الزام نہیں لگایا۔
واوڈا نے پریس کانفرنس میں کیا کہا؟
خیال رہےکہ فیصل واوڈا نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ اگر ممبر اسمبلی دوہری شہریت نہیں رکھ سکتا تو جج کیوں رکھے، جج دوہری شہریت کے ساتھ کیسے بیٹھے ہوئے ہیں؟ آپ کیلئے شراب حلال ہے ہمارے لیے حرام ہے، بھٹو صاحب کے معاملے پر کیا اور کسی کو سزا دی؟ آصف زرداری کو 14 سال سزا ہوئی کوئی پوچھنے والا نہیں، بانی پی ٹی آئی کی چلتی حکومت کو چلنے نہیں دیا جاتا، روٹی، میٹرو ہر چیز پر اسٹے آرڈر ہو جاتا ہے۔