17 مئی ، 2024
اسلام آباد: پاکستان چین سے قرض توسیع کا خواہاں ہے اور آئی پی پیز کے 15.36ارب ڈالر واپس کرنے کی مدت 5سال بڑھانے کیلئے آپشنز کی تلاش کررہا ہے۔
اس حوالے سے اسلام آباد کو چینی حکومت اور آئی پی پیز کی رضا مندی درکار ہوگی، طویل مذاکرات کی ضرورت پڑ سکتی ہے ،پاکستان قرض مزید 377ارب روپے بڑھ جائے گا۔
ادھر آئی ایم ایف نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ آئندہ پانچ سال کے دوران پنشن ، سرکاری اداروں اور سبسڈیزکے حوالے بقایا جات کی تفصیلات واضح شیئر کی جائیں ۔
پاور ٹیرف پر نیپرا حکام کی آئی ایم ایف کو بیس لائن ٹیرف پر بریفنگ ، گرما گرم بحث، 5سے 7روپے اضافے سے نرخ 35سے 36روپے فی یونٹ ہوجائیں گے ۔
تفصیلات کے مطابق آئی ایم ایف کے مشن کی اسلام آباد میں موجودگی کے دوران جو کہ پاکستان کے بڑھتے ہوئے قرض کی ادائیگی کی صلاحیت کا جائزہ لے رہا ہے اور اس نے قرض کے نئے معاہدے پررسمی مذاکرات شروع ہونے سے پہلے ہی ، پنشنوں، ایس او ایز اور سبسڈیز سے متعلق واجب الادا رقوم کے حسابات مانگ لیے ہیں۔
پاکستان چین سے یہ درخواست کرنے کے آپشن تلاش کر رہا ہے کہ آئی پی پیز کے باقی ماندہ قرض کےلیے 15.3 ارب ڈالر کے قرض کو پانچ سال تک کی توسیع دے۔
اس عمل کےلیے پاکستا ن کو چینی حکومت کی آمادگی درکا ر ہوگی اسی طرح ملک میں کام کرنے والے آئی پی پیز کے موجودہ کنٹریکٹس کو بھی تبدیل کرنا ہوگا جس کےلیے طویل مذاکرات کرنا ہوں گے۔
اگر حکومت چین سے رسمی درخواست کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو اس کیلئے طویل مذاکرات درکار ہوں گے اور یہ ایک آپشن ہےجس سے صارفین کےلیے ٹیرف 2024 سے 2029 تک 1.1 روپیہ سستا ہوسکتا ہے جبکہ 2023سے 2040کے درمیان 0.9 روپے سستا ہوسکتا ہے چنانچہ سے اس مجموعی طور پر ٹیرف 018 کلوواٹ ہاور تک 2024سے 2040کے درمیان کم ہوسکتا ہے۔
سرکاری ورکنگ کےمطابق پتہ چلا ہے کہ اگر چینی آئی پی پیز کے قرض پر توسیع مل جائے تو موجودہ قرض جو کہ 15.3ارب ڈالر ہے وہ سولہ اعشایہ اکسٹھ ڈالر ہوجائے گا اور اس طرح پانچ سال میں اس قرض کی مالیت میں ایک ارب 30کروڑڈالر کا اضافہ ہوجائے گا۔ روپوں کےحوالے سے دیکھاجائے تو آئی پی پیز کے قرض کی لاگت پانچ سال کے عرصے کے دوران 377ارب روپے بڑھ جائے گی۔
پاکستانی حکام نے اعلیٰ حکام کو قائل کرنے کیلئے اس کی ایک توجیہ بھی بنا لی ہے اور ان کا موقف ہے کہ موجودہ پاورٹیرف اسٹرکچر کی ادائیگی کو پہلے 10سال میں اداکرنے پر مرتکز ہے جس سے صارفین پر بہت زیادہ مالیاتی بوجھ آتا ہے ۔ قرض کی مدت میں توسیع سے یہ بوجھ کم ہوسکتا ہے اور اسے بڑے عرصے تک پھیلایاجاسکتا ہے۔ سی پیک کے تحت مجموعی طور پر 21 آئی پی پی پروجیکٹ ہیں جن میں سے 8 پروجیکٹ کوئلے پر ، 4 پن بجلی کے منصوبے ، 8 پون بجلی کے اور ایک ٹرانسمیشن لائن کا منصوبہ ہے اور ان کامجموعی قرض 15.3 ارب ڈالر ہے۔
آئی پی پیز کے قرض میں یہ توسیع حاصل کرنے کےلیے پاکستان کو چین کے ساتھ حکومت سے حکومت کی سطح پر بھرپور مذاکرات کرنا ہوں گے اور پھر اس کے بعد چینی آئی پی پیز کے ساتھ بھی مذاکرات کرنا ہوں گے۔اس سے صارفین پر بوجھ کم کرنے میں مدد مل سکے گی ، نقدرقوم کا بہاؤ بہتر ہوسکے گا اور پاکستان میں معاشی نموکو تقویت ملے گی۔
اگرچہ اس فنانسنگ کی لاگت (اس پرسود)1.257 ارب ڈالر تک بڑھ سکتا ہے۔ موجودہ مذاکرات کے دوران آئی ایم ایف نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ کھلے عام اپنی واجب الادا ادئیگیوں سے آگاہ کرے جو کہ پنشنوں، ریاستی کنٹرول میں چلنے والے کاروباری اداروں اور سبسڈیز سے متعلق ہوں اور یہ سارے حسابات آئندہ پانچ سال سےمتعلق ہوں کیوں کہ واجب الادا ادائیگیوں کو کھاتوں سے باہر رکھاجاتا ہے جس کی وجہ سے باقی ماندہ قرض اور واجب الادائیگیوں کی حقیقی صورتحال کا پتہ چلانا مشکل ہوتا ہے۔
بجلی کے ٹیرف کے حوالے سے نیپر ا کے سرکردہ عہدیداروں نے آئی ایم ایف کی ٹیم کو بیس لائن ٹیرف کے بارے میں بتایا اور اس موقع پر سخت بحث و مباحثہ ہوا۔
آئی ایم ایف کی ڈیل حاصل کرنے کےلیے حکومت کو آئی ایم ایف کی دورے پر آئی ہوئی ٹیم کو یہ آمادگی دینا ہوگی جس کے بعد نئے بیل آؤٹ پیکیج کیلئے رسمی مذاکرات شروع ہوسکیں گے کیونکہ ابھی تک آئی ایم ایف جو بات چیت کررہاہے یہ رسمی مذاکرات نہیں ہیں۔
اگر بجلی کے بنیادی ٹیرف میں 5سے 7روپے فی یونٹ اضافے پر اتفاق ہوجاتا ہے تو اوسط بنیادی یونٹ جو ابھی 29روپے پر ہے وہ 35یا چھتیس روپے تک پہنچ جائے گا۔ گیس کا ٹیرف بھی جولائی سے ایک مرتبہ پھر بڑھے گا اور یہ اوسطا ساٹھ فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔