فیکٹ چیک: جرمن نشریاتی ادارے نے پاکستان میں مالی فراڈ کو بےنقاب کرنے کی کوئی ویڈیو نہیں بنائی

جرمنی کے نشریاتی ادارے DW نے ایسی کوئی رپورٹ نشر نہیں کی ہے۔

آن لائن صارفین بڑے پیمانے پر ایسے دعوے شیئر کر رہے ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ جرمنی کے ایک نشریاتی ادارے نے پاکستان میں ایک اہم مالی فراڈ کا پردہ فاش کیا ہے، جس میں الزام لگایا گیا کہ دبئی سے آنے والے عطیات کا غلط استعمال کرتے ہوئے پرتعیش اشیاء کی خریداری کی گئی ہے۔

تاہم، یہ دعوے غلط ہیں۔

دعویٰ

18 مئی کو X، (جسے پہلے ٹوئٹر کے نام سے جانا جاتا تھا) پر ایک 52 سیکنڈ کی ویڈیو شیئر کی گئی، جس میں جرمنی میں قائم ڈی ڈبلیو (DW) نیوز کا لوگو تھا۔

ویڈیو کے پس منظر میں مبینہ طور پر DW کی رپورٹر ہونے کا دعویٰ کرنے والی خاتون نے شہر بانو نامی لڑکی پر پاکستان میں غریب بچوں میں کھانا تقسیم کرنے کےلئے دبئی سے جمع کیے گئے فنڈز کا غلط استعمال کرنے کا الزام لگایا۔

 رپورٹر نے دعویٰ کیا کہ بچوں کےلیے فنڈز کو ذاتی عیش و عشرت کے لیے استعمال کیا گیا تھا، جس سے خیراتی سرگرمیوں میں مالی نگرانی پر شور مچ اٹھا۔

اس پوسٹ کو اب تک 1لاکھ 61 ہزار سے زائد مرتبہ دیکھا جاچکا ہے۔

مبینہ خبر کی رپورٹ یہاں، یہاں اور یہاں بھی شیئر کی گئی۔

حقیقت

جرمن نیوز براڈکاسٹر ڈی ڈبلیو کی طرف سے ایسی کوئی رپورٹ نشر نہیں کی گئی۔

تصویر کی جامع کی ورڈ اور ریورس امیج سرچ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ آن لائن ویڈیو میں نظر آنے والی فوٹیج وائس آف امریکہ کی 29 اپریل 2016 کو نشر ہونے والی ایک ویڈیو رپورٹ سے اخذ کی گئی تھی۔ اصل رپورٹ میں پاکستانی استاد محمد ایوب کو دکھایا گیا تھا، جو اسلام آباد کے ایک پارک میں بنیادی سہولیات سے محروم بچوں کو پڑھاتے تھے۔

اس حقیقت کی تصدیق DW کے ایک صحافی نےبھی نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کی۔

انہوں نے میسجز کے ذریعے بتایا ”اس ویڈیو میں استعمال کیا گیا فونٹ یا ڈیزائن ہمارا نہیں ہے، ہم نے یقینی طور پر [اس موضوع] پر رپورٹ نہیں بنائی۔“

ہمیں@GeoFactCheck پر فالو کریں۔

اگرآپ کو کسی بھی قسم کی غلطی کا پتہ چلے تو [email protected] پر ہم سے رابطہ کریں۔