25 مئی ، 2024
ایم کیوایم پاکستان نے سابق گورنر ڈاکٹرعشرت العباد کے سیاست میں پھر سے فعال ہونے اور وطن واپسی کے اعلان کو بظاہر غیر اہم قرار دیتے ہوئے نظرانداز کردیا ہے تاہم ساتھ ہی خود کو بہتر صف آرا کرنے کی کوشش بھی تیز کردی ہے۔
ایم کیوایم پاکستان کے سینئرترین رہنماؤں میں سے ایک نے سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کی کراچی میں صحافیوں سے زوم میٹنگ پر ردعمل میں کہا کہ یہ میٹنگ ہمارے علم میں ہے مگر اس پر ردعمل نہیں دیا جائے گا۔
عام طورپر سیاسی جماعتیں اپنے مخالفین کے بیانات پر ردعمل اس لیے نہیں دیتیں کیونکہ اس عمل سے مخالف ہی کا قد بڑھتا ہے، میڈیا میں نئی بحث شروع ہوتی ہے اور پھر ردعمل پرردعمل کا لامتناہی سلسلہ چل نکلتا ہے۔ یہ عمل گڑھے مردے اکھاڑنے کا بھی باعث بنتا ہے، اسی لیے ہر منظم سیاسی جماعت اس سے بچنا چاہتی ہےکیونکہ حریف کے پاس کھونے کے لیے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔
اس نمائندے سے بات کرتے ہوئے ایم کیوایم پاکستان کے انتہائی فعال رہنماؤں میں سے ایک نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ڈاکٹرعشرت العباد صاحب تقریباً ساڑھے سات برس پہلے خاموشی کے ساتھ کراچی سے دبئی چلے گئے تھے اور وہاں جاکر اپنا استعفیٰ دیا تاکہ بطور گورنر انہیں سیف ایگزٹ ملے ورنہ ایم کیوایم کے دلبرداشتہ کارکن ان کے خلاف تاریخی احتجاج کرتے۔
ایم کیوایم پاکستان ہی کے ایک اور فعال رہنما نے ساتھ ہی الزام لگایا کہ ڈاکٹرعشرت العباد نے اربوں روپے بنائے ہیں اور اب یہ وقت سیاست میں ان کی واپسی کا نہیں بلکہ گالف کھیلنے کا ہے، یعنی وہی کام کرنے کا ہے جس کا مشورہ سیاست میں لوٹنے کے خواہشمند آمروں کو دیا جاتا ہے۔ اس رہنما نے ڈاکٹر عشرت العباد کی میڈیا گفتگو پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ قائدانہ کردار ادا کرنے کے خواب دیکھنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ سیاست میں پہلے منختب ہونا پڑتا ہے۔
تاہم ان فعال رہنما نے تسلیم کیا کہ بظاہر ڈاکٹرعشرت العباد کے نام پر لگائی گئی سُرخ لکیر شاید مٹنا شروع ہوگئی ہے اور سابق گورنرکوپلان بی یا سی کے طور پر استعمال کیے جانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ شاید پنج سالہ منصوبے کا حصہ ہو، فی الحال اس کے اثرات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اس سوال پر کہ اگر سابق گورنر نے نئی سیاسی جماعت بنائی تو ایم کیوایم رابطہ کمیٹی سے نکالے گئے سینئر رہنما کیا ڈاکٹر عشرت العباد کو جوائن کریں گے؟ سینئر فعال رہنما نے اثبات میں سرہلایا اور کہا کہ ممکن ہے گنتی کے چند افراد ان کے ساتھ مل بیٹھیں مگر ایسا بڑی تعداد میں نہ ہونے کی کئی وجوہات ہیں۔
انہی فعال رہنما کے بقول ایم کیوایم کی ازسرنو تنظیم سازی کا عمل تیزی سے جاری ہے۔اب تقریباً چالیس افراد پر مشتمل مرکزی کونسل بنائی جائے گی جو مشاورت کا کام انجام دے گی جبکہ مرکزی کمیٹی دس اراکین پر مشتمل ہوگی جو فیصلہ سازی کرے گی۔ اس طرح تقریباً پچاس سے پچپن رہنما پارٹی امور کو سنبھالیں گے اور جن کے تحفظات ہیں وہ دور کردیے جائیں گے۔
ایک اور فعال رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ اگر کوئی چالیس روز میں ایک بار بھی دفتر آنا پسند نہ کرے تو سابقہ رابطہ کمیٹی کے اس رکن کو دوبارہ لینے کا فائدہ نہ ایم کیوایم پاکستان کو ہوگا اور نہ ہی ڈاکٹر عشرت العباد کو۔
ایم کیوایم کے سینئر فعال رہنما نے دعویٰ کیا کہ آٹھ سال ملک سے باہر رہنے والے ڈاکٹر عشرت العباد اگر شہری سیاست سے واقف ہیں تو یہ جانتے ہوں گے کہ وہ دو آدمیوں کو بھی اراکین اسمبلی منتخب کرانے کی پوزیشن میں نہیں، ان کاکہنا تھا کہ دوسروں کی تو بات ہی کیا، سابق گورنر خود کونسلر بھی منتخب ہوجائیں تو بڑی بات ہوگی۔
سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے کراچی کے مقامی ہوٹل میں سینئر صحافیوں سے جمعہ کو زوم پر ملاقات کی تھی جس میں انہوں نے اپنے آنے کی بنیادی وجہ یہ بتائی تھی کہ ایم کیوایم کے رہنما ڈیلیور نہیں کر پارہے۔
سابق گورنر سندھ نے کہا تھا کہ 'اگر کراچی کی حاکمیت کا دعوی کرنیوالے فعال ہوتے تو مجھے فعال ہونے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ ایم کیوایم اخلاقی جواز اور سیاسی مقام کھوچکی جبکہ منتخب اراکین کی قانونی حیثیت عدالتوں میں چیلنج ہے۔ یہ وہ خلا ہے جسے دیکھ کر وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مجھے کچھ کرنا ہے'۔
ایم کیوایم پاکستان کے فعال رہنماؤں کا موقف اپنی جگہ مگر یہ حقیقت ہے کہ نہ صرف غیرفعال اور کم فعال بلکہ ایم کیوایم پاکستان کے بعض فعال مرد اور خواتین رہنما بھی ڈاکٹر عشرت العباد سے رابطہ کررہےہیں اور بعض نے تو اس بات کی بھی اجازت مانگی ہے کہ اشارہ ہو تو وہ ایم کیوایم سے لاتعلقی کااعلان کردیں۔
کئی برادریوں کےسرکردہ افراد، وکلا اورکاروباری شخصیات نے بھی پچھلے ایک ہفتے میں ڈاکٹر عشرت العباد سےرابطے کیے ہیں تاہم سابق گورنر نے کسی کو بھی کھل کر اپنی سیاسی حکمت عملی سےآگاہ نہیں کیا۔
سابق گورنر سندھ نے اتنا ضرور کہا ہے کہ وہ ملکی صورتحال سے ہم آہنگی پیدا کرتے ہوئے وطن واپسی کی تاریخ کا اعلان کریں گے۔
پوری صورتحال پر ردعمل میں پیپلزپارٹی کے ایک رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ایم کیوایم کواب اُسی صورتحال کا سامنا ہے جیسا انیس سو اسی کی دہائی میں پیپلزپارٹی کو تھا یعنی پیپلزپارٹی کا بڑھتا سیاسی اثر توڑنے کے لیے ایم کیوایم بنائی گئی تھی اور اب بقیہ ایم کیوایم کے کس بل نکالنے کی تیاری ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔