شہر کا وہ تاریک کونا جہاں مایوسی ، غفلت اور منشیات کی لت آپس میں ٹکراتے ہیں

منشیات استعمال کرنے والےزیادہ تر افراد اپنے آپ کو بے گھر پاتے ہیں، ان کے اہل خانہ نے چھوڑ دیا ہےاور دوسرا ان کے پاس اپنی شناخت قائم کرنے کے لئے کوئی قانونی دستاویزات نہیں ہوتی ہیں۔

لاہور کی چلچلاتی دھوپ ناصر* پر ٹوٹ پڑی، جب اس نے اپنے دوست کی دلخراش کہانی سنائی، جو چند روز قبل پٹری پر گرنے کے بعد ایک ٹرین کی زد میں آکر اپنا بازو کھو بیٹھا تھا۔

لیکن ناصر کا کہنا ہے کہ اصل ہولناکی خود حادثے سے نہیں بلکہ بعد میں ہونے والے علاج  یا اس کی کمی سے آئی ہے۔

اس کی آواز میں ایک تلخ ذائقہ موجود تھا جب اس نے بتایا کہ”وہ [ڈاکٹرز] اسپتال میں اسے ہاتھ نہیں لگاتے تھے، ناصر کے دوست کو جب قریبی سرکاری اسپتال لے جایا گیا تو اسےہمدردی نہیں بلکہ حقارت کا سامنا کرنا پڑا، انہوں [اسپتال والوں] نے چیخ چیخ کر توہین کی اور ہمارے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا۔“

ناصر اور اس کا دوست دونوں ہی ایک پسماندہ کمیونٹی کا حصہ ہیں، جن کے لیے ”نشہ کے انجیکشنز لگانے والے“ کی مخصوص اصطلاح ستعمال کی جاتی ہے۔

24 سالہ ناصر اس وقت صرف 15 برس کا تھا، جب لاہور کے ایک چھوٹے سے باربی کیو ریسٹورنٹ کے باورچی اور مالک نے  اسے نشے سے متعارف کروایا ۔ ناصر کی چرس اور تمباکو نوشی سے شروع ہونے والی یہ عادت بالآخر ہیروئن کے انجیکشنز میں بدل گئی۔

لاہورکے علاقے فیروزپورروڈ میں قائم اپنی والدہ کے گھر سے لے کر سڑکوں پر برسوں تک بھٹکنے کے بعد ہیروئن کے استعمال کا نتیجہ HIV کی تشخیص پر ہوا، جس کے بارے میں اسے حال ہی میں معلوم ہوا۔

شہر کا وہ تاریک کونا جہاں مایوسی ، غفلت اور منشیات کی لت آپس میں ٹکراتے ہیں
ایچ آئی وی ٹیسٹ کے لیے خون کے نمونے کی نمائندہ تصویر - کینوا

اپنے والد کے بارے میں بات کرنے سے گریزاں اور چار بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ناصر کا کہنا ہے کہ اس کی والدہ ابھی بھی اس کے ساتھ اچھی ہیں۔ اس نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ”میں پھنس گیا ہوں، میں واقعی [نشے کی عادت] ترک کرنا چاہتا ہوں، لیکن میں پھنس گیا ہوں،جب میں اسپتال جاتا ہوں تو وہ مجھے ایسے دیکھتے ہیں جیسے میں ان کا دشمن ہوں۔“

ناصر کی کہانی منفرد نہیں ہے۔ UNODC کی 2013 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان منشیات کے استعمال کے ایک اہم مسئلے سے دوچار ہے، جس میں42 لاکھ 50 ہزار سے زائد افراد منشیات استعمال کرتے ہیں۔ لیکن منشیات کے استعمال کے زیادہ پھیلاؤ کے باوجود یہ 2022 تک ایسا نہیں تھا جب حکومت پاکستان نے UNODC کی مدد سے ملک میں منشیات کے استعمال پر ایک نیا قومی سروے شروع کیا، جو ابھی مکمل ہونا باقی ہے۔

شہر کا وہ تاریک کونا جہاں مایوسی ، غفلت اور منشیات کی لت آپس میں ٹکراتے ہیں
انجیکشن کے ساتھ رکھی ہوئی افیون کی عکاسی کرنے والی تصویر - کینوا

2013 کی رپورٹ نے نشہ استعمال کرنے والوں میں علاج کی شدید خواہش کو بھی اجاگر کیا، اس میں مزید کہا گیا کہ رسائی اور استطاعت کی کمی بڑی رکاوٹیں تھیں اور خواتین کو مردوں کے مقابلے میں علاج حاصل کرنے کا امکان بھی کم تھا۔

اس کے علاوہ اعداد و شمار نوجوانوںکی ایک بہت بڑی تعداد کو ظاہر کرتے ہیں، جس کے مطابق 15 سے 39 سال کی عمر کے افراد سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔

شہر کا وہ تاریک کونا جہاں مایوسی ، غفلت اور منشیات کی لت آپس میں ٹکراتے ہیں
لاہور میں ٹرین کی پٹری جہاں ناصر نے اپنے دوست کو بے ہوش پایا اور اس کا بازو ٹرین سے کٹ گیا۔ فوٹو کریڈٹ- مصنف 

تنہا، لاوارث اور بے وطن

لاہور میں ایک غیر منافع بخش تنظیم کے لئے کام کرنے والے سائٹ مینجر شہریار احمد بتاتے ہیں کہ منشیات استعمال کرنے والےزیادہ تر افراد لاوارث، گھر سے بے دخل کئے گئے اور دوسرا ان کے پاس اپنی شناخت قائم کرنے کے لئے کوئی قانونی دستاویزات نہیں ہوتی ہیں۔

شہریار احمد اسلام آباد میں قائم ”نئی زندگی ٹرسٹ“ نامی ایک NGO سے وابستہ ہیں، جو منشیات کے استعمال سے ہونے والے نقصانات جیسا کہ ایچ آئی وی/ایڈز اور ہیپاٹائٹس سی وائرس کی منتقلی کو روکنے کے لئے کام کرتی ہے۔

انہوں نے Geo.tv کو بتایا کہ ”ان [منشیات استعمال کرنے والے افراد] کے پاس قومی شناختی کارڈ جیسی بنیادی دستاویزات بھی نہیں ہوتیں۔“

شہریار احمد کا مزید کہنا تھا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ منشیات کا استعمال کرنے والوں کی اکثریت چھوٹی عمر سے ہی سڑکوں پر رہتی ہے اس لئے ان کے اہل خانہ نے کبھی بھی ان کے شناختی کارڈ حاصل نہیں کئے، یا تو ان کے اہل خانہ انہیں مسترد کر دیتے ہیں یا پھر ان کے والد یا بھائی شناختی دستاویزات کے حصول میں ان کی مدد کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔

شہریار احمد نے مزید بتایا کہ دستاویزات کی عدم موجودگی، علاج کے خواہشمند افراد کے لئے دوا کا حصول، کسی سرکاری یا نجی اسپتال میں جانا، یا یہاں تک کہ بحالی کے مرکز میں داخلہ لینا بھی مشکل بنا دیتی ہے۔

شہر کا وہ تاریک کونا جہاں مایوسی ، غفلت اور منشیات کی لت آپس میں ٹکراتے ہیں
اسپتال کے وارڈ کی ایک نمائندہ تصویر - کینوا

پنجاب میں صحت کی دیکھ بھال کے شعبے میں ملازمت کرنے والے متعدد افراد، جنہوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنےکی شرط پر Geo.tv کو انکشاف کیا کہ صوبے میں حکومت کی طرف سے چلائے جانے والے ایڈز کنٹرول پروگرام میں رجسٹریشن کے خواہشمند افراد کے لیے قومی شناختی کارڈ کا ہونا بنیادی شرط ہے۔

یہاں تک کہ ملتان شہر میں مردوں کے لئے موجود ”مثالی“ منشیات کی بحالی کا مرکز، جسے پنجاب کی وزارت سماجی بہبود نے قائم کیا ہے، نے بھی اپنی ویب سائٹ پر اندراج کے لیے قومی شناختی کارڈ کو لازمی شرط قرار دیا ہے۔

شہر کا وہ تاریک کونا جہاں مایوسی ، غفلت اور منشیات کی لت آپس میں ٹکراتے ہیں
راولپنڈی میں سڑک کے کنارے ایک منشیات استعمال کرنے والا دوسرے کو ہیروئن لگانے کی تیاری کر رہا ہے۔ اے ایف پی/فائل

نئی زندگی کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ملائکہ ظفر اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ شناختی کارڈز کی عدم موجودگی ان افراد کے علاج تک رسائی میں ایک اہم رکاوٹ ہے جو منشیات کے انجیکشنز لگاتے ہیں اور HIV پازیٹو ہیں۔

ملائکہ ظفر نے ٹیلی فون پر Geo.tv کو انٹرویو دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ ”زندگی کا حق ایک آئینی حق ہے، ہمارے کلائنٹس، جن میں سے صرف 20 فیصد کے پاس شناختی کارڈز موجود ہے،ان کو صحت کی سہولتوں تک رسائی سے انکار کرنا اس بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے۔“

ملک بھر کے 58 اضلاع میں خدمات سرانجام دینے والی ملائکہ ظفر اور ان کی ٹیم اس بات کی ضمانت دینے کے لئے کہ ان کے کلائنٹس کو ضروری طبی امداد مل جائے شناختی کارڈ کی شرط عائدنہیں کرتی ۔نئی زندگی کی خدمات سے رضاکارانہ طور پر مدد حاصل کرنے والے افراد کو ایک ”منفرد شناختی نمبر“ الاٹ کر دیا جاتا ہے۔ اس نمبر میں شہر کا کوڈ، ایریا کوڈ، اور نام ظاہر نہ کرنے کی حفاظت کے لیے سسٹم سے تیار کردہ ترتیب شامل ہے۔

شہر کا وہ تاریک کونا جہاں مایوسی ، غفلت اور منشیات کی لت آپس میں ٹکراتے ہیں
زمین مین پر پڑے منشیات کے انجیکشن کی تصویر۔ - Unsplash

تاہم، ملائکہ ظفر اس بات پر اصرار کرتی ہیں کہ ریاست کو بھی اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے ایک مناسب پالیسی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔

حکومت کے زیر انتظام نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کی 2016-17 Biological and Behaviour Surveillanceکی رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق منشیات کے انجیکشز لگانے والے افراد میں HIV کا پھیلاؤ تقریباً 38.4 فیصد ہے۔ حکومت نے ابھی تک ان اعداد و شمار کو اپ ڈیٹ نہیں کیا۔

پروگرام کی ویب سائٹ مزیداس بات پر روشنی ڈالتی ہے کہ حکومتی کوششوں کے باوجود، حالیہ برسوں میں ملک بھر میں ایچ آئی وی انفیکشن کی شرح میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

شہر کا وہ تاریک کونا جہاں مایوسی ، غفلت اور منشیات کی لت آپس میں ٹکراتے ہیں
تصویر میں زمین پر پڑا ایک انجکشن دکھایا گیا ہے،فوٹو کریڈٹ- مصنف

احترام، ہمدردی، اور ایک گھر

مئی کی ایک دوپہر کو بھی ایک ایسے وقت میں جب لاہور ایک خطرنا ک ہیٹ ویو کی لپیٹ میں ہے، سائٹ مینیجر شہریار احمد انتہائی بے بس افراد کی مدد کرنے کا عزم لئے ثابت قدم ہیں۔

وہ صبح 6 بجے کام شروع کرتے ہیں اور اپنی ٹیم کے ساتھ نئی زندگی نے لاہور میں قائم کئے گئے 25 ہاٹ سپاٹس کا دورہ کرتے ہوئے ایسے افراد کو طبی دیکھ بھال، مدد اور مشاورت فراہم کرتے ہیں جو خود کو نشے کے انجیکشنز لگاتے ہیں۔

وہ Geo.tv کے ساتھ فیروز پور روڈ کے قریب کئی ہاٹ سپاٹس میں سے ایک کے حالیہ دورے پر 45 ڈگری سیلسیس درجہ حرارت کی شدید گرمی میں شہر کے ایک پرانے محلے کے ایک گرد آلود کونے میں ایسے شخص سے بات کر رہے تھے، جس کے بازوؤں پر پٹیاں، ٹریک کے نشانات اور خارش تھی۔

ان کے اردگرد بکھرے بالوں اور پھٹے کپڑوں میں ملبوس کچھ نوجوان مرد اور عورتیں ہیں، جوکچرے کے تھیلے اٹھائے ایک پرانے درخت کے نیچے دھوپ سے بچنے کے لئے کسی پناہ کی تلاش میں تھے۔

شہریار احمد نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ”کیا آپ جانتے ہیں کہ اس آدمی نے مجھ سے کیا کہا؟ اس نے کہا جس طرح تم مجھ سے بات کرتے ہو، میرے والدین بھی مجھ سے اس طرح بات نہیں کرتے،ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر آپ ان کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں، انہیں کچھ پیار اور شفقت دکھائیں، وہ خود کو بدلنے کے لیے تیار ہیں،حکومت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ بھی ایسے مریض ہیں جنہیں طبی علاج کی ضرورت ہے۔“

لیکن منشیات استعمال کرنے والوں کے گرد پھیلی ہوئی بدنامی ایک اور رکاوٹ ہے۔ حکومتی اہلکار منشیات پر انحصار کرنے والے افراد کا حوالہ دیتے ہوئے اکثر تضحیک آمیز الفاظ استعمال کرتے ہیں، انہیں ”نشے کے عادی“،”نشئی“،”کباڑی“ یا ”زومبی“ کہتے ہیں۔

گلوبل کمیشن آن ڈرگ پالیسی کی 2018 کی رپورٹ کے مطابق یہ شرائط منفی معنی رکھتی ہیں اور منشیات کا استعمال کرنے والے لوگوں کو مزید بدنام کرتی ہیں گویا کہ وہ ”جسمانی طور پر کمتر یا اخلاقی طور پر ناقص ہیں“۔

رپورٹ میں مزید مشورہ دیا گیا ہے کہ سیاسی رہنماؤں اور صحافیوں کو اس کی بجائے ”منشیات پر انحصار کرنے والا شخص“، ”منشیات کا استعمال کرنے والا“ یا ”منشیات کے استعمال سے خرابی“ جیسے تاثرات استعمال کرنے چاہئیں۔

معاشرے میں احترام کی ضرورت ایک ایسا جذبہ تھا جس کی بازگشت کئی لوگوں کی طرف سے سنائی دیتی تھی ۔Geo.tv نے ان سے بات کی جو پہلے منشیات استعمال کرتے تھے یا اب بھی کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک فوزیہ ہے، جس کی کہانی نشہ استعمال کرنے والی خواتین کو درپیش تلخ حقیقتوں کی ایک مثال ہے۔

اکیس سالہ فوزیہ اس وقت صرف نو سال کی تھی جب اس کی ماں کا انتقال ہو گیا۔ اپنی بیٹی کی دیکھ بھال کرنے سے قاصر، اس کے والد اسے اکثر اپنے پڑوس کے گھر چھوڑ دیتے تھے، جسے ایک عورت چلاتی تھی، جو کہ بقول فوزیہ ایک ”رقاصہ“ تھی۔

سب سے پہلے، یہاں پریہ نوجوان لڑکی عام طور پر آئس یا کرسٹل میتھ کے طور پر استعمال ہونے والی دوا، میتھیمفیٹامائن سے متعارف ہوئی۔

فوزیہ نے Geo.tv کو بتایاکہ” میں اسے [آئس استعمال کرنے والی خاتون کو] چپکے سے دیکھا کرتی تھی، ایک دن جب وہ ایک پروگرام کے لئے اسلام آباد گئی تو میں نے خود اسے آزمانے کا فیصلہ کیا۔“

فوزیہ کا کہنا تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس نے بھی منشیات کا استعمال شروع کر دیا اور بالآخر خود کو سڑکوں پر پایا۔اب وہ HIV پازیٹیو ہے اور اپنے نشہ کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے دن کے وقت گلیوں میں بھیک مانگتی ہے ۔

اب اس کا واحد ”خاندان“ ایک جزوقتی منشیات فروش ہے جسے وہ سڑک پر ملی تھی اور جس نے اسے بہن کے طور پر گود لیا۔

اس نے لاہور کے ایک پرانے محلے میں ملبے اور کچرے کے درمیان بیٹھے مسکراتے ہوئے کہا کہ”وہ عیسائی ہے اور میں مسلمان ہوں، لیکن وہ میرے ساتھ میرے حقیقی بھائی سے بھی بڑھ کر سلوک کرتا ہے، وہ ان دنوں مجھے ایک [بحالی] مرکز میں داخل کروانے کے لئے پیسے جمع کر رہا ہے، آپ کو پتہ ہے کہ مجھے مدد چاہیے میں ایک دن شادی کرنا چاہتی ہوں۔“

فوزیہ مزید کہتی ہے کہ ایک نوجوان عورت کے لئے بھیک مانگنا اور کھلے آسمان میں سونا آسان نہیں ہے اور نہ ہی معاشرہ اس جیسے لوگوں کے لئے مہربان ہے جنہیں مدد کی ضرورت ہے۔

اس کا کہنا تھا کہ ”لوگ، مرد، ہمارے بارے میں گندے لطیفے بناتے ہیں، وہ ہمارے ساتھ صحیح سلوک نہیں کرتے، وہ مجھ سے کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ چلو ہم تمہیں 500 روپے دیں گے۔“

اسے صرف ان منشیات استعمال کرنے والے افراد سے عزت ملتی ہے جو اس جیسے بے گھر ہیں۔ اس کے لئے شہر کے تاریک کونے اس کا گھر ہیں، اور یہ ”کباڑی“ اس کا واحد خاندان ہیں۔

”یہاں صرف یہی لوگ میرے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں، ان کے لیے میں’دیدی‘ یا ’کاکا‘ ہوں۔“

کیا پنجاب حکومت توجہ دے رہی ہے؟

پنجاب میں سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن کے وزیر خواجہ سلمان رفیق نے انکشاف کیا کہ صوبے کے تمام 50 پبلک سیکٹر ہسپتالوں نے ایسے افراد کے لیے 10 بیڈز مختص کیے ہیں جو نشہ آور اشیاءکے استعمال کی خرابی میں مبتلا ہیں۔

اس کے علاوہ، محکمہ سماجی بہبود اور بیت المال نے مزید سہولیات کے منصوبوں کے ساتھ10”ماڈل منشیات کے استعمال کے مراکز“ قائم کیے ہیں۔

ان خدمات تک رسائی کے لیے شناختی کارڈ کی ضرورت کے بارے میںصوبائی وزیر نے کہا کہ مریض کا رشتہ دار یا اٹینڈنٹ رجسٹریشن کے لیے اپنا شناختی کارڈ نمبر یا انگوٹھے کا نشان بھی فراہم کر سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا،”یہ نظام مریضوں کے انگوٹھے کے نشانات کے ذریعے نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) سے براہ راست ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔“

تاہم، یہ واضح نہیں ہے کہ نادرا کے سسٹم میں رجسٹرڈ نہ ہونے والے مریضوں کے لیے کیا انتظامات ہیں۔

اس کے علاوہ،صوبائی وزیر نے”کباڑی“ اور ”منشیات کے عادی“ جیسی اصطلاحات کی بدنما نوعیت کو تسلیم کیا۔

وزیر نے Geo.tv کو بتایا، ”نشہ آور اشیاء کے استعمال کے شکار  افراد  بھی آخرکار انسان ہوتے ہیں اور ہر انسان کو باوقار  زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے،کوئی بھی فرد منشیات کے عادی کے طور  پر  پیدا نہیں ہوتا۔“

Geo.tv نے پنجاب میں سماجی بہبود کے وزیر سہیل شوکت بٹ اور وفاقی وزیر داخلہ محسن رضا نقوی سے بھی تبصرے طلب کیے لیکن اس آرٹیکل کے شائع ہونے کے وقت تک کوئی جواب نہیں ملا۔

* شناخت کے تحفظ کے لیےکرداروں کے حقیقی ناموں کو تبدیل کیا گیا ہے۔