31 مئی ، 2024
میاں نواز شریف پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر منتخب ہوگئے۔ ان کیلئےیہ ایک علامتی سا عہدہ لگتا ہے، نواز شریف کا سیاسی قد کاٹھ اتنا ہے کہ بادی النظر میں کوئی بھی عہدہ ان کی ضرورت نہیں ہے، مجھ پر طنز کیا جاتا ہے کہ میں میاں صاحب کے حوالے سے جانبدار ہوں، جبکہ مجھ میں اور طنز کرنے والوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ میں اس کا اعتراف کرتا ہوں اور وہ اپنی جانبداری بلکہ ’’جانبداریوں‘‘ کا اعتراف نہیں کرتے۔میں اس وقت بھی ان کے ساتھ تھا جب وہ وزیراعظم تھے اور تینوں بار اس وقت بھی میری جانبداری میں کوئی فرق نہیں آیا جب وہ جیل کے ڈیتھ سیل میں اور جلاوطنی کے ادوار سے گز ررہے تھے اور ہاں وہ واحد حکمران اور برس ہا برس مصیبتیں جھیلنے والے رہنما ہیں،جن کے علاوہ کوئی سیاست دان مجھے اتنا زیادہ پسند نہیں آیا کہ اس کیلئے کھل کر کلمۂ خیر کہہ سکوں، میری اس جانبداری کی ایک وجہ ان کا بے حد بہادر ہونا ہے اور وہ ماضی میں بار ہا اس کا مظاہرہ کرتے چلے آئے ہیں، وہ ملک کی خاطر یہ رسک بار ہا لےچکے ہیں اور شاید آئندہ بھی وہ اسی رستے پر چلتے رہیں گے، انہیں پسند کرنے کی ایک وجہ ان کا وژنری ہونا ہے، ایک اور وجہ یہ کہ وہ ڈائون ٹو ارتھ ہیں، حد درجہ منکسر المزاج اور چھوٹوں بڑوں سب کو عزت دینے والے ہیں۔ اب اگر میں ان کی خدمات گنوانے بیٹھ گیاتو وہ باتیں درمیان ہی میں رہ جائیں گی جو میں کہنا چاہتا ہوں۔
بہت معذرت کے ساتھ پہلی بات یہ ہے کہ دوسری سیاسی جماعتوں میں بھی پارٹی بازی موجود ہے مگر مسلم لیگ (ن) میں یہ کچھ زیادہ نظر آنے لگی ہے۔ پارٹی معاملات سے میرا دور بلکہ دور دور تک کوئی تعلق نہیں کہ میں حتمی طور پر کوئی بات کہہ سکوں، یا یوں کہہ لیں کہ کھل کر کوئی بات کہہ سکوں، میں اتنا عرض کروں گا کہ اس کی ایک شکل الیکشن کے دوران ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے بھی نظر آئی۔ یہ بھی نظر آتا ہے کہ حاکمِ وقت کے کون قریب ہے اور کسے دور دور رکھا جاتا ہے، حکومت کے باہر بھی پسندیدہ اور ناپسندیدہ افراد کی تقسیم کا شائبہ دکھائی دیتا ہے، مجھے لگتا ہے مشورہ دینے والے بھی محتاط ہیں، مجھے مرکز میں چار پانچ وزراء ایسے دکھائی دیتے ہیں جو اپنے عہدے سے انصاف کرتے دکھائی دیتے ہیں، ایک دو ایسے بھی جو پارٹی سے کسی مسئلے کے حوالے سے کھل کر اختلاف کرتے ہیں اور ان کا یہ اختلاف چھلک کر باہر بھی آ جاتا ہے، جن حالات میں الیکشن ہوئے شاید اس کی وجہ سے بھی سلیکشن کڑےمعیار کو سامنے رکھ کر نہیں کی جا سکی۔
جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں اس وقت سیاسی میدان میں میاں نواز شریف کے قد کاٹھ کا کوئی اور لیڈر نہیں، چنانچہ خود انہیں مشورہ دینا بہت عجیب سا لگتا ہے، شاید اسی لئے ان کے قریب ترین اور انتہائی مخلص ساتھی بھی اس حوالے سے ہچکچاتے ہیں، مگر میں یہ ’’رسک‘‘ لے رہا ہوں اور وہ یوں کہ ان کے ساتھ چند پست قد و قامت کے جج صاحبان نے اپنے منصب سے گری ہوئی جو حرکتیں کیں اور جس کی وجہ سے ترقی کرتا ہوا پاکستان تنزلی کی طرف چلا گیا، ان کے مطابق بہت ہو چکی، میرے خیال میں ایک بڑے لیڈر کی طرف سے ان کا بار بار ذکر انہیں اہمیت دینے کے برابر ہے، ان کا کردار ساری دنیا کے سامنے اظہر من الشمس ہو چکا ہے، سب جان چکے ہیں کہ یہ لوگ کہاں سے بول رہے تھے اور اب شاید ہی کوئی شخص ایسا ہو جو جان نہ چکا ہو کہ ان پر لگائی گئی تہمتیں خود واپس ان لوگوں کے چہروں پرچسپاں ہو چکی ہیں اب انہیں بھول جانا چاہیے۔
سو میرے نزدیک میاں صاحب کے کرنے کے جو کام ہیں ان میں سرفہرست قوم کو ازسر نو ترقی کے سفر پر روانہ ہونے والے چارٹر کی تیاری اور اس کی نگہبانی ہے، وزیراعظم شہباز شریف خود بھی سب سے زیادہ اسی کام کو اہمیت دیتے ہیں اور یہی نہیں بلکہ اپنے بھائی کو اپنا لیڈر قرار ہی نہیں دیتے، ان کے مشوروں کو ان کا حکم گردانتے ہیں۔ اب یہ کام تیز سے تیز تر ہو جائے گا۔ دوسرا کام پنجاب کے حوالے سے ہے جو پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ اور مسلم لیگ کا گڑھ رہا ہے، شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب کے طور پر زبردست کارکردگی دکھا چکے ہیں، اب مریم نواز پنجاب کی وزیر اعلیٰ ہیں چنانچہ انہیں سخت امتحان میں ڈال دیا گیا ہے مگر وہ نواز شریف کی بیٹی ہیں اور سیاسی کارکن کے طور پر بہت صعوبتیں بھی برداشت کر چکی ہیں، چنانچہ امید تو یہی ہے کہ وہ اس امتحان میں کامیاب ہوں گی تاہم انہیں قدم قدم پر رہنمائی کی ضرورت ہے اور رہنمائی کا یہ فریضہ بھی میاں نواز شریف ہی کو ادا کرنا ہے۔ مریم نواز کو خود بھی اپنے گرد ایسا ماحول پیدا کرنا چاہیے کہ لوگ انہیں صحیح مشورہ دیتے ہوئے جھجکیں نہیں، میں نے میاں نواز شریف کو تو رہگیروں سے بھی مشورہ کرتے دیکھا ہے، اب یہ کام مریم نواز کو بھی کرنا ہے اور میاں صاحب کو اب وسیع تر مشاورت کا یہ سبق بھی مریم نواز کو دینا ہے اور ایسا کرتے وقت ان کی ’’باپتا‘‘ درمیان میں نہیں آنی چاہیے۔
آخر میں یہ کہ مسلم لیگ کے کارکن مسلم لیگ کی حکومت بننے کے بعد سے لوگوں سے چھپتے پھر رہے ہیں، لوگ ان کے پاس جائز کاموں کیلئے آتے ہیں جو وزراء ہی کرسکتے ہیں، مگر وزراء کا رابطہ اپنے کارکنوں سے بھی نہیں، اس کوتاہی کی طرف بھی توجہ دینا ضروری ہے، ان کی آئندہ بھی ضرورت پڑنی ہے، بس آخر میں اس حوالہ سے ایک شعر سن لیں۔
جنہیں حقیر سمجھ کر بجھا دیا تو نے
وہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔