04 جون ، 2024
اسلام آباد: سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کے خلاف کیس کی سماعت میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیےکہ آزاد امیدوار سنی اتحادکونسل میں نہ جاتے تو تحریک انصاف کہہ سکتی تھی کہ مخصوص نشستیں ہمیں دو۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ نے درخواست پر سماعت کی جس دوران چیف جسٹس قاضی نے سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی کو لارڈ شپ کہنے سے منع کردیا اور کہا کہ لارڈ شپ کہنے کی ضرورت نہیں، وقت بچایا جاسکتا ہے۔
فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کل مجھے کچھ بنیادی قانونی سوالات فریم کرنےکا کہا گیا تھا، اس پر عدالت نے کہا پہلے کیس کے مکمل حقائق سامنے رکھ دیں۔
آزاد امیدوارسنی اتحادکونسل میں نہ جاتے تو تحریک انصاف کا کیس اچھا ہوتا اور وہ یہ کہتے کہ مخصوص نشستیں ہمیں دو، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے کہا کل جسٹس جمال مندوخیل کا سوال تھا پی ٹی آئی نے بطور جماعت الیکشن کیوں نہیں لڑا؟ سلمان اکرم راجا نےاسی متعلق درخواست دی تھی جو منظور نہیں ہوئی اور بطورجماعت (پی ٹی آئی نے) حصہ نہیں لیا تو آزاد امیدوار کے طور پر انتخابات میں حصہ لیا۔
فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سنی اتحادکونسل نے شیڈول کے مطابق مخصوص نشستوں کی لسٹ دی، الیکشن کمیشن نے درخواست مستردکرتے ہوئےکہا سنی اتحاد کونسل نےانتخابات میں حصہ نہیں لیا۔
فیصل صدیقی نے کہا اس میں کوئی تنازع نہیں کہ سنی اتحاد کونسل نے انتخابات نہیں لڑے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے آپ تنازع کی بات کیوں کررہے ہیں، بس کہیں الیکشن نہیں لڑا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ دو جگہ آپ نے پارلیمنٹری پولیٹیکل پارٹی اور تیسری جگہ پولیٹیکل پارٹی لکھا، آخری جگہ پارٹی لکھا،کوئی خاص فرق ہے؟ اس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کے مطابق پارلیمنٹری پارٹی اور پولیٹیکل پارٹی کا بتایا ہے، پولیٹیکل پارٹی پارلیمانی پولیٹیکل پارٹی ہوسکتی ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آئین پولیٹیکل پارٹی اور پارلیمنٹری پولیٹیکل پارٹی میں فرق کرتا ہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے فیصل صدیقی سے سوال کیا آپ 8 فروری سے پہلےکیا تھے؟ اس پر فیصل صدیقی نے جواب دیا 8 فروری سے پہلے ہم سیاسی جماعت تھے اور آزاد امیدواروں کی شمولیت کے بعد ہم پارلیمانی جماعت بن گئے ہیں۔
پی ٹی آئی مسلسل شکایت کررہی تھی لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں مل رہی، جسٹس اطہر
جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ جو امیدوار ہمارےسامنے نہیں جن کی آپ نمائندگی کررہے ہیں وہ تو سب تحریک انصاف کے ہیں، تحریک انصاف کے امیدوار تو آپ کو چھوڑ رہے ہیں، آپ کی پارٹی میں نہیں آرہے، تحریک انصاف کے امیدوارتوپھرآزاد نہ ہوئے۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ تحریک انصاف کے امیدوار انتخابی نشان پر الیکشن نہیں لڑسکتے تھے، الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے امیدواروں کوکس بنیاد پرانتخابی نشان دیا، الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو انتخابی نشان دیا اور بطور آزاد امیدوار شناخت دی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے پارلیمان میں فیصلے پارلیمانی پارٹی کرتی ہےجنہیں ماننےکے سب پابند ہوتےہیں، پارلیمانی پارٹی قانونی طورپرپارٹی سربراہ کی بات ماننےکی پابند نہیں ہوتی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا آرٹیکل 51 میں سیاسی جماعت کا ذکر ہے، پارلیمانی پارٹی کا نہیں، آرٹیکل 51 اور مخصوص نشستیں حلف اٹھانے سے پہلے کا معاملہ ہے، امیدوار حلف لیں گے تو پارلیمانی پارٹی وجود میں آئے گی، پارلیمانی پارٹی کاذکر ابھی غیرمتعلقہ ہے،مناسب ہوگا ابھی سیاسی جماعت اورکیس پرفوکس کریں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کاغذات نامزدگی میں کوئی خودکوپارٹی امیدوارظاہرکرے اور ٹکٹ جمع کرائے تو جماعت کا امیدوارتصورہوگا، آزاد امیدوار وہی ہوگا جو بیان حلفی دے گا کہ کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں۔
جسٹس منیب نے کہا سنی اتحادکونسل میں شامل ہونے والوں نےخودکوکاغذات نامزدگی میں تحریک انصاف کا امیدوار ظاہر کیا اور کاغذات بطور تحریک انصاف امیدوار منظور ہوئے اور امیدوار منتخب ہوگئے تو الیکشن کمیشن کےقوانین کیسےتحریک انصاف کےامیدواروں کو آزاد قراردے سکتےہیں؟ انتخابی نشان ایک ہویا نہ ہو الگ بحث ہےلیکن امیدوارپارٹی کےہی تصورہوں گے۔
جسٹس منیب اختر کے ریمارکس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا اس حساب سے تو سنی اتحاد کونسل میں تحریک انصاف کےکامیاب امیدوارشامل ہوئے، سیاسی جماعت میں تو صرف آزاد امیدوار ہی شامل ہوسکتے ہیں، اس پر جسٹس منیب نے کہا سپریم کورٹ نے انتخابی نشان واپس لینے کا فیصلہ برقرار رکھا تھا اور سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کرنا تنازع کی وجہ بن گیا۔
جسٹس قاضی فائض عیسیٰ نے سوال کیا کہ تحریک انصاف یا آزاد امیدواروں نے بیٹ کا نشان لینے کی درخواست دی؟ چیلنج کیوں نہیں کیا اگر بیٹ کا نشان نہیں ملا؟ اس پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا سب آزاد امیدوار تو بیٹ نہیں مانگ سکتے تھے۔
اس موقع پر جسٹس منیب اختر نے کہا انتخابی نشان کی الاٹمنٹ سے پہلے سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تھا، قانونی غلطیوں کی پوری سیریز ہے جس کا آغاز یہاں سے ہوا تھا، وکیل فیصل صدیقی نے کہا سلمان اکرم راجا نے خودکو تحریک انصاف امیدوار قرار دینےکےلیے رجوع کیا تھا، الیکشن کمیشن نے سلمان اکرم راجا کی درخواست مسترد کردی تھی۔
جسٹس حسن اظہررضوی نے استفسار کیا بلےبازبھی کسی سیاسی جماعت کانشان تھاجوتحریک انصاف لیناچاہتی تھی اس کے ساتھ کیا ہوا تھا؟ وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا بلےبازوالی جماعت کےساتھ الحاق ختم کردیاتھا۔
سپریم کورٹ بلےکےنشان والےفیصلے کی وضاحت کردیتی توسارےمسائل حل ہوجاتے: وکیل درخواست گزار
وکیل فیصلہ صدیقی نے کہا سپریم کورٹ بلےکےنشان والےفیصلے کی وضاحت کردیتی توسارےمسائل حل ہوجاتے ، اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہم نے تو نہیں کہا تھا انٹراپارٹی الیکشن نہ کرائیں، انٹرا پارٹی انتخابات کرالیتے سارے مسائل حل ہوجاتے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا اصل اسٹیک ہولڈ رووٹر ہے جو ہمارےسامنے نہیں، پی ٹی آئی مسلسل شکایت کررہی تھی لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں مل رہی، ہم بنیادی حقوق کےمحافظ ہیں،ہمیں دیکھنا ہے ووٹرز کے حقوق کا تحفظ کیسے ہوسکتا ہے، ایک جماعت مسلسل شفاف موقع نہ ملنےکا کہہ رہی تھی اور ایساپہلی بارنہیں ہوا۔
اس موقع پر جسٹس قاضی فائض عیسیٰ نے کہا لیول پلیئنگ فیلڈ کی شکایت ہمارے سامنے نہیں آئی۔
جسٹس منصور علی شاہ پوچھا پارلیمنٹ میں زیادہ آزاد امیدوارہوں اور 2 سیاسی جماعتیں ہوں تو کیا ساری مخصوص نشستیں 2 سیاسی جماعتوں کو جائیں گی یا ان جماعتوں کوصرف اپنی جیتی ہوئی نشستوں کےتناسب سےمخصوص نشستیں ملیں گی؟ پہلے اس تنازع کو حل کریں اس کا کیا جواب ہے؟
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا اگر یہ 77 لوگ سنی اتحادکونسل میں شامل نہ ہوتے تو پھر مخصوص نشستوں کاکیا ہوتا؟ اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے دو سیاسی جماعتیں اپنی جیتی نشستوں کےتناسب سے ہی مخصوص نشستیں لیں گی، باقی نشستوں کاکیاہوگا بعد میں دیکھاجائےگا، یہ نہیں ہوسکتا کہ سیاسی جماعتوں کواضافی نشستیں بھی بانٹ دیں۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیے یا توآپ کہیں ایوان کو مکمل نہیں کرنا تو پھر تو بات ہی ختم ہے اور اگر 336 کانمبر پورا ہوناہےتو پھر نشستیں خالی نہیں چھوڑ سکتے، آزاد امیدوارسنی اتحادکونسل میں نہ جاتے تو تحریک انصاف کا کیس اچھا ہوتا اور وہ یہ کہتے کہ مخصوص نشستیں ہمیں دو۔
جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا اگرکوئی بھی سیاسی جماعت نشستیں نہ جیتے اور سب آزاد آئیں توکیا ہوگا؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا ایسی صورت میں مخصوص نشستیں کسی کونہیں ملیں گی، اس پر جسٹس اطہر نے کہا اس کامطلب ہےسیاسی جماعتوں کو اپنی جیتی نشستوں کےحساب سے ہی مخصوص نشستیں ملیں گی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا سیاسی جماعتوں کوکس تناسب سےنشستیں ملیں گی یہ آئین میں کہاں لکھاہے؟ جسٹس منصور علی شاہ نے جواب دیا حاصل کی گئی قومی نشستوں سےہی سیاسی جماعت کامخصوص نشستوں کا تناسب نکلےگا۔
وکیل درخواست گزار فیصل صدیقی نے کہا ابھی قومی اسمبلی میں 7 آزاد اراکین ہیں اور7 سیٹوں پر مخصوص نشست نہیں بنتی۔
بعد ازاں عدالت نے مخصوص نشستوں سے متعلق سماعت مزید 24 جون تک ملتوی کردی۔