04 جون ، 2024
گورنر ہاؤس سندھ میں نئے اسٹرکچرز کی تعمیر اور پرانے حصوں کی تزئین و آرائش نے اس عمارت کا نقشہ ہی بدل دیا۔ اس پرشکوہ بلڈنگ میں نوادرات کے ساتھ کیا ہوا؟ حالت بدلنے کی رقم کہاں سے آئی؟ اس کا ذکربعد میں مگر پہلے یہ کہ دوسال میں 18 لاکھ شہری گورنر ہاؤس کا چکر کیوں لگا چکے ہیں اور یہ کیوں 'عوام گھر' کے نام سےمشہور ہوگیا؟
ایوان صدر روڈ پر واقع مرکزی دروازے پر پہنچیں تو مرد، خواتین اور نوجوان 'امید کی گھنٹی' بجا کر 'عوامی گورنر' سے کسی نہ کسی شہری محکمے کی شکایت درج کراتے ملیں گے۔ رات کا کوئی بھی پہر ہو، شکایتی مرکز پر تین سے چار اہلکاروں پرمشتمل عملہ یہ تحریری درخواستیں وصول کرتا ملے گا۔
اندر داخل ہوں تو زرا ہی فاصلے پر ایک اور شکایتی مرکز ہے جہاں سات سے آٹھ افراد پر مشتمل عملہ وہ شکایتیں دور کرنے پر مامور ہے جو سندھ بھر کے شہری آن لائن جمع کراتے ہیں۔ اسمارٹ فونز نے لوگوں کو اس قدر سہولت دی ہے کہ وہ گورنرہاؤس کے انفارمیشن اینڈ کمپلینٹ واٹس ایپ نمبر پر اپنی درخواستیں کسی بھی لمحے بھیج سکتےہیں۔
کمپلینٹ نظام مسلسل اپ ڈیٹ کرتا ہے کہ آج کسی محکمے کے بارے میں کتنی شکایتیں ملیں اور ان میں سے کتنی دور کی گئی ہیں۔ کوئی شکایت جائیداد پر قبضے کی ہے تو کوئی بااثرشخص کے ہاتھوں غریب گھرانے پر مظالم کی دکھ بھری داستان ہے۔ یہاں رشوت ستانی سے تنگ لوگوں کی جلی کٹی باتیں بھی ملیں گی اور گٹرکے ڈھکن غائب ہونے کا شکوہ بھی۔
چونکہ درخواست کے اندراج کیلئے کیو آر کوڈ ائیرپورٹ اور پولیس اسٹیشنز پر بھی موجود ہے، اس لیے بیرون ملک سے آنیوالے سندھ کے باسیوں اور دیگر عام شہریوں کو جہاں کوئی ہزیمت اٹھانا پڑے، وہیں سے شکایت جمع کرائی جارہی ہے۔
چند سو میٹر کے فاصلے پر 'آئی ٹی مارکی' ہے۔ وہ خواب جو بانی پی ٹی آئی عمران خان نے قوم کودکھایا گیا تھا مگراس پرعمل کامران خان ٹیسوری نے کیا۔
کئی کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر اس مارکی میں 50 ہزار طلبہ وطالبات کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے جدید ترین کورسزمفت کرائے جارہے ہیں جبکہ چند ہی روز میں ساڑھے چارلاکھ طلبہ یہی کورسز آن لائن سیکھ سکیں گے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ ہونہار طالبعلموں میں سے کسی کو لیپ ٹاپ انعام میں دیے جارہے ہیں توکسی کو جدید موبائل فونز۔
آئی ٹی یونیورسٹی تک طالبعلموں کی بلا روک ٹوک رسائی ممکن بنانے کیلئے آئی ٹی گیٹ اور مارکی تک 3 کلومیٹر سڑک بنادی گئی ہے اور بقیہ حصے پر پیور لگادیے گئے ہیں۔
سرٹیفائیڈ آرٹیفشل انٹیلی جنس، میٹاورس اور ویب تھری پوائنٹ زیروڈیولپر کے کورسز کیلئے یہاں آنیوالوں کے تصور میں بھی نہیں ہوگا کہ 2 برس پہلے یہاں جنگل ہوا کرتا تھا۔ نہ پی ایم ٹی تھی نہ 40 ائیرکنڈیشنز جو اس ہیٹ ویو کے دور میں طلبہ کو سکون سے پڑھائی کا موقع دے سکیں۔
مارکی سے جڑے وسیع وعریض میدان میں بھی اب تعمیراتی کام شروع کردیا گیا ہے۔ یہ جگہ طالبعلموں کے والدین کیلئے مختص کی گئی ہے جبکہ اسکا ایک حصہ یہاں آنیوالوں کی گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کی پارکنگ کیلئے استعمال ہوگا۔ دوسرے حصے میں وہ لیب بنانے کی تیاریاں ہیں جہاں قابل طالبعلم بیٹھ کر اپنے پراجیکٹس مکمل کرسکیں گے۔
اسی عمارت کے ایک جانب اب 'راشن مارکی' قائم ہے جہاں ضرورت مند گھرانوں کو ماہانہ بنیاد پر اشیائے خورونوش دینے کا اہتمام ہے۔ کوکنگ آئل، آٹا، چینی، نمک اور دالوں وغیرہ پرمشتمل روزمرہ استعمال کی اشیا کی تقسیم کیلئے خصوصی کارڈ بنائے گئے ہیں تاکہ چیک اینڈ بیلنسرہے اور کوئی ضرورت مند محروم بھی نہ ہو۔ ایک اہلکار نے بتایا کہ اب تک تقریباً ساڑھے 5 لاکھ راشن بیگ مستحقین میں تقسیم کیے جاچکےہیں۔
تقریباً 36 ایکڑ پرمحیط گورنر ہاؤس کے اندرونی حصے کی جانب بڑھیں تو نیا رہائشی بلاک تعمیر کیا گیا ہے جس میں گورنر کامران خان ٹیسوری کی فیملی قیام پزیر ہے۔ ساتھ ہی اب ایک جدید کانفرنس ہال بنایا گیا ہے جہاں قد آور اسکرینز پریزنٹیشن کیلیے لگائی گئی ہے۔ دوسری جانب کئی ہزار گز پرپھیلے میدان کو باغ میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ یہ بھی وہ حصے ہیں جہاں جھاڑیاں اس قدر بڑی تھیں کہ ملازم بھی جاتے ہوئے گھبراتے تھے۔
سن 1840 میں قائم کی گئی اس عمارت کے ایک حصے میں بنے ٹینس کورٹ کو کھیل کے لائق بنایا گیا ہے۔ 2 سال پہلے جو یہاں غلطی سے بھٹک گیا ہو، اسے اب یقین ہی نہیں آئے گا کہ یہ گورنر ہاؤس کا وہی حصہ ہے کیونکہ ماضی میں یہاں کی دیواریں آثار قدیمہ کا منظر پیش کرتی تھیں۔
سامنے بڑی قطعہ اراضی پر اب انواع واقسام کی سبزیاں اگائی جارہی ہیں تاکہ مہمانوں اور ملازمین کیلئے تروتازہ سبزیوں سے کھانے تیار کیے جائیں۔ پالتو جانوروں کیلئے شیڈز بنادیے گئے ہیں جہاں اعلیٰ نسل کے گھوڑے، گائیں، بکرے اور دیگر پالتو جانور رکھے گئے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ جانوروں کیلئے یہاں سائے تک کا انتظام نہ تھا۔
ایک ملازم کا کہنا تھا کہ گورنر صاحب رات کے کسی بھی پہر مختلف حصوں کا چکر لگاتے ہیں،گھاس کی کٹائی، درختوں کی تراش خراش، لائٹ اور وینٹی لیشن کا اس قدر باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں کہ چیکنگ کرنیوالے بھی حیران رہ جاتےہیں کہ یہ خامیاں رہ کیسے گئیں؟ کسی کمرے یا ہال میں ائیرکنڈیشنر فالتو چلتا دیکھ لیں تو قیامت آجاتی ہے کہ ساتھ ملازمین کی کالونی میں لوگ ہوا کھانے کیلئے کھلی جگہ میں بیٹھے ہیں اور یہاں لاپرواہی سے ایسا اصراف کیا جارہاہے۔
انہی ملازمین کیلئے چھ منزلہ 48 فلیٹس کی تعمیر بھی جاری ہے۔ ساتھ ہی مہمانوں کیلئے مختص پارکنگ کے ساتھ ڈرائیوروں کے بیٹھنے اور کھانے پینے کی جگہ بنائی جارہی ہے۔ رہائشی علاقے میں مقیم ایک اہلکار نے بتایا کہ رمضان میں گورنر ہاؤس کے تمام ملازمین کو بلاناغہ مفت سحری گھروں پر فراہم کی گئی۔ کھانا وہی تھا جو گورنرکی فیملی اور مہمانوں کیلئے تیار کیا جاتا تھا۔
گورنر ہاؤس کی عمارت کا قدیم حصہ وہ ہے جس کی 1936 میں اس جگہ پر تعمیرشروع کی گئی تھی جہاں کبھی بوسیدہ اسٹرکچر ہوا کرتا تھا۔2 برس پہلے کراچی میں طوفانی بارشیں ہوئیں تو اسی حصے کی چھت اور دیواروں سے فوارے پھوٹ پڑے تھے۔
اسی قدیم حصے میں بیش قیمت غلاف کعبہ کا ایک ٹکڑا بھی تھا جو سعودی عرب کے مرحوم بادشاہ فیصل نے فیلڈ مارشل ایوب خان کو تحفے میں دیا تھا۔ گورنرٹیسوری نے مختلف ممالک کے قونصل جنرلز کو مدعو کرکے خصوصی تقریب منعقد کی اور اس غلاف کو شیشے میں فریم کراکر دربار ہال کے داخلی حصے پرآویزاں کیا گیا۔ یہ وہی دربارہال ہے جہاں گورنرکی تقریب حلف برداری ہوتی ہے۔
یہیں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اوران کی بہن فاطمہ جناح کے زیر استعمال رہی انتہائی قیمتی اشیا بھی ہیں۔ 2 سال پہلے تک قائداعظم کی تاریخی کرسیاسٹور کی زینت تھی اور فاطمہ جناح کا پیانو بھی دھول میں اٹا تھا۔
قائداعظم کی کرسی کو گورنر ٹیسوری نے ہال میں اسکے جائزمقام پروسط میں رکھوایا جبکہ سلطنت برطانیہ کے بادشاہ جارج ہفتم کے اس تخت کو بائیں جانب رکھوایا گیا جو دورہ کراچی میں کوئن میری نے بھی استعمال کیا تھا۔
قائداعظم اور فاطمہ جناح کے رائل سوئٹس کو بھی شایان شان انداز سے سنوارا گیا ہے۔ یہ وہی سوئٹس ہیں جہاں اب سربراہ مملکت یا وی وی آئی پیزقیام کرتے ہیں۔
لاپرواہی کے سبب مہنگی ٹیک کی جو لکڑی پھول کر خراب ہوگئی تھی، اسے ٹھیک کرایاگیا، دبیزقالین دھلوائے گئے، قیمتی فانوس پالش کرائے گئے، صوفے، کرسیاں اور میزیں جو مرمت کیے جاسکے انہیں ٹھیک کرایا گیا، دوسری صورت میں نئے لائے گئے۔مہمانوں کے کمروں کی بھی آرائش کی گئی۔
گورنر ہاؤس میں لگے 36 اقسام کے گلاب کے پھولوں پرمشتمل روزگارڈن ہو یا چہارباغ، انہیں بھی نئی روح ملی ہے۔ 20 کروڑ سالانہ بجٹ والے گورنرہاؤس میں 15 کروڑ روپے تنخواہوں کی مد میں استعمال کیے جاتے ہوں تو یہ سب ہوا کیسے؟
کامران خان ٹیسوری کا کہنا ہے کہ انہوں نے صرف یہ بات یقینی بنائی ہے کہ گورنرہاؤس کی تزئین و آرائش کیلئے مختص سالانہ فنڈ کی ایک ایک پائی جائز انداز سے خرچ ہو جہاں تک آئی ٹی اور راشن مارکی کا تعلق ہے تو پچھلے دو سالوں میں انہیں اپنے خاندانی کاروبار سے جو آمدنی ہوئی وہ انہوں نے اسی پر لگادی۔ ساتھ ہی صاحب ثروت افراد نے اس قدر تعاون کیا ہے کہ خود انہیں بھی اسکا تصور نہیں تھا۔
گورنرسندھ کا کہنا تھا کہ لوگ نیایا پرانا نہیں، قائد اعظم کا پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں، گورنرہاؤس میں دو وقت کی روٹی، تعلیم، صحت اور روزگار فراہم کرکے انہوں نے قائداعظم ہی کا پاکستان بنانے کی کوشش کی ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔