بھارتی انتخابات: اپوزیشن اور حکومتی اتحاد نے کیا کھویا، کیا پایا؟

موجودہ صورتحال 2019 کے انتخابی نتائج سے بالکل مختلف ہیں جب بی جے پی کی قیادت میں حکمران اتحاد این ڈی اے نے 353 نشستیں حاصل کی تھیں

دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلائے جانے والے ملک بھارت میں عام انتخابات میں لوک سبھا کی 543 نشستوں پر ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے کے بعد  الیکشن کمیشن نے تمام نشستوں پر انتخابات کے نتائج کا اعلان کردیا۔

بھارتی الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری نتائج کے مطابق 2024 کے عام انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) 240 نشستوں کے ساتھ سب سے آگےرہی، انڈین نیشنل کانگریس 99 نشستوں کے ساتھ دوسرے اور سماج وادی پارٹی 37نشستوں کے ساتھ تیسری نمبر پر رہی۔

آل انڈیا ترینامول کانگریس کزاغم 29 اور تیلگو دیسام 16 اور جنتا دل نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے جبکہ شیو سینا (یو بی ٹی) نے 9 نشستیں اپنے نام کیں۔

حکمران جماعت بی جے پی لوک سبھا میں سادہ اکثریت کے لیے درکار 272 نشستیں اکیلے حاصل کرنے میں ناکام رہی،  تاہم اتحاد  295 نشستوں پر کامیابی کے ساتھ سادہ اکثریت کی بنیاد کی حکومت بنالے گا، اس کے برعکس کانگریس کی زیر قیادت  اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ نے 231 نشستیں حاصل کرلی ہیں۔

یہ صورتحال 2019 کے انتخابی نتائج سے بالکل مختلف ہیں جب بی جے پی کی قیادت میں حکمران اتحاد این ڈی اے نے 353 نشستیں حاصل کی تھیں جن میں سے 303 اکیلے بی جے پی نے حاصل کی تھیں۔

بھارت کے سابق حکمران اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کی میٹنگ آج ہوگی جس میں بی جے پی نریندر مودی کو تیسری بار وزیراعظم نامزد کرانے کی کوشش کرے گی۔ 

کانگریس نے بی جے پی کو  اُسی کے ہتھیار سے کاری ضرب لگائی اور ’اب کی بار چار سوپار‘ کا بی جے پی کانعرہ ووٹر کیلئے خوف کی علامت بنادیا، کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے اور رہنما راہول گاندھی عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہے کہ اگر بی جے پی کو چار سو نشستیں مل گئیں تو وہ آئین بدل دے گی اور کوٹہ سسٹم ختم کردے گی۔

گاندھی کی آئین بچاؤ موثرانتخابی مہم کے نتیجے میں کانگریس کو 99 نشستیں ملی ہیں جو 2019کے مقابلے میں دو گنا زیادہ ہیں، 10 برس بعد غیرمعمولی نشستیں جیت کربھارت کی اپوزیشن جماعت کانگریس نریندر مودی سمیت حکمراں اتحاد کے لیے پھر سے ڈراؤنا خواب بن گئی ہے۔

اسطرح دس سال میں پہلی بار کانگریس قائدحزب اختلاف کے طورپر اپنے لیڈر کو پیش کرنے میں بھی کامیاب ہوگئی ہے۔تاہم یہ ابھی واضح نہیں کہ راہول گاندھی ہی اپوزیشن لیڈر بنیں گے یا نہیں۔

حالیہ انتخابات میں بھارت کی انتخابی سیاست میں کیا تبدیلیاں آئیں، آئیے جانتے ہیں۔

بھارتی انتخابات: اپوزیشن اور حکومتی اتحاد نے کیا کھویا، کیا پایا؟
کانگریس کی زیر قیادت’انڈیا‘ کی جانب سے 200 سے زائد نشستیں حاصل کرنے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے— فوٹو: رائٹرز

بھارتی انتخابات کے نتائج کے مطابق کانگریس پارٹی 24 ریاستوں اور یونین ٹیرٹریز میں اراکین منتخب کرانے میں کامیاب ہوئی ہے تاہم مدھیہ پردیش، انڈمان اور نکوبارجزائر میں اس بارکھاتہ نہیں کھول سکی۔

کانگریس اس بار راجستھان، گجرات، چندی گڑھ، ناگا لینڈ، لکشدویپ اور منی پور میں بھی کھاتہ کھولنے میں کامیاب رہی تاہم کرناٹک میں کم نشستیں ملنے سے اسے مایوسی کا سامنا ہوا۔

اترپردیش میں بی جے پی کی شکست

بی جے پی کو اپنے گڑھ اُتر پردیش میں شکست کا سامنا ہوا جہاں سماج وادی پارٹی اور کانگریس کو 43 نشستیں ملیں، اسطرح بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے والی بی جے پی کو ایودھیا میں بھی اپنی شکست تسلیم کرنا پڑگئی۔

بھارتی ریاست اترپردیش میں 2017 سے بی جے پی کی حکومت ہے، اس ریاست میں لوک سبھا کی 80 نشستیں ہیں اور یہ 24 کروڑ آبادی کے ساتھ بھارت کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست ہے۔ حالیہ انتخابات میں راہول گاندھی اور نریندر مودی دونوں ہی یہاں سے الیکشن لڑرہے تھے۔

2019 میں حکمران اتحاد این ڈی اے نے یہاں سے 64 نشستیں حاصل کی تھیں جن میں سے 62 نشستیں اکیلے بی جے پی نے جیتی تھیں تاہم آج 2024 میں صورتحال مختلف ہے۔

اب تک آنے والے نتائج کے مطابق سماج وادی پارٹی یہاں 37 اور کانگریس نے 6 نشستوں پر کامیابی حاصل کی، یہ کل 43 نسشتیں بنتی ہیں۔ دوسری جانب بی جے پی 33 اور اس کے اتحادی دیگر 3 نشستوں پرکامیاب قرار پائے۔ 

دلچسپ بات یہ ہے کہ فیض آباد کے حلقے میں ایودھیا کے مقام پر مودی نے جنوری میں  رام مندر کا افتتاح کیا تھا وہاں بھی بی جے پی پیچھے ہے۔

بھارتی انتخابات: اپوزیشن اور حکومتی اتحاد نے کیا کھویا، کیا پایا؟
فیض آباد کے حلقے میں جہاں مودی نےرام مندر کا افتتاح کیا تھا وہاں بھی بی جے پی پیچھے ہے— فوٹو: رائٹرز

خود مودی کے حلقے وارانسی میں بھی کانگریس کے امیدوار اجے رائے نے بی جے پی  کے ووٹ بینک کو نقصان پہنچایا۔ 2019 میں یہاں سے نریندر مودی کی جیت کا فرق 5 لاکھ ووٹوں کا تھا جو حالیہ انتخابات میں ڈیڑھ لاکھ ہی رہ گیا۔ اس کے برعکس راہول گاندھی اپنے حلقے رائے بریلی سے 3 لاکھ 90 ہزار ووٹوں کے فرق سے جیتے۔

اسی طرح بی جے پی کی سمرتی ایرانی جنہوں نے 2019 کے انتخابات میں راہول گاندھی کو 55 ہزار ووٹوں سے شکست دی تھی اس بار کانگریس کے امیدوار کشور لعل کے مقابلے میں ہار گئیں۔

کیرالہ میں بی جے پی کی پہلی کامیابی 

بھارت کی جنوبی ریاست کیرالہ میں بی جے پی کو اپنے قدم جمانے میں ہمیشہ سے ہی مشکلات کا سامنا رہا ہے تاہم حالیہ انتخابات میں صورتحال تبدیل ہوگئی۔

بی جے پی کے امیدوار سریش گوپی نے حالیہ انتخابات میں کیرالہ کے حلقے ترشور کی نشست 74 ہزار سے زائد ووٹوں کے فرق سے جیتی، یہ کیرالہ میں بی جے پی کی پہلی جیت ہے۔ 

تجزیہ کاروں کے مطابق بی جے پی کی جیت کی ایک وجہ اس کا خود کو ریاست میں موجود اسلاموفوبک مسیحی عناصر کے ساتھ ہم آہنگ کرنا بھی ہے۔

 
بھارتی انتخابات: اپوزیشن اور حکومتی اتحاد نے کیا کھویا، کیا پایا؟
بی جے پی کو کیرالہ میں پہلی جیت حاصل ہوگئی ہے— فوٹو: رائٹرز

کیرالہ 55 فیصد ہندوؤں، 27 فیصد مسلمانوں  اور 18 فیصد مسیحیوں پر مشتمل ہے۔ دونوں مذہبی اقلیتیں مل کر کل آبادی کا تقریباً نصف بنتی ہیں جو انہیں انتخابات میں ایک بڑی قوت بناتی ہیں۔

تاہم حالیہ برسوں میں بی جے پی نے ’لَو جہاد‘ جیسے سازشی نظریات کو فروغ دینے جیسے اقدامات کے ذریعے مسلمانوں کو ایک خطرہ ثابت کرکے مسیحیوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوششیں کیں۔

آخر مہاراشٹرا بی جے پی کے ہاتھ سے کیسے نکلا؟

مہاراشٹرا میں کانگریس نے بی جے پی کے مقابلے میں تقریبا دوگنا زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں۔

کانگریس اور اس کے اتحادی مہاراشٹرا میں اہم کامیابیاں حاصل کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں وہیں بی جے پی  اور اس کے اتحادی شکست خوردہ نظر آتے ہیں،  نتائج کے مطابق ریاست کی 48 نشستوں میں سے 29 اپوزیشن کا انڈیا الائنس جیت حاصل کرچکا ہے  جن میں 13 نشستوں پر اکیلے کانگریس کو برتری حاصل ہے جبکہ بی جے پی صرف 9 نشستیں حاصل کر پائی۔

بھارتی انتخابات: اپوزیشن اور حکومتی اتحاد نے کیا کھویا، کیا پایا؟
مہاراشٹرا میں اپوزیشن اتحاد کو برتری حاصل ہے— فوٹو: رائٹرز

تجزیہ کاروں کے مطابق اگرچہ ایگزٹ پولز اس کے برعکس تھے لیکن یہ نتیجے زیادہ غیر متوقع نہیں ہے۔ بی جے پی نے گزشتہ 5 سالوں میں ریاست میں سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کی تذلیل کی جس کی وجہ سے عوام بی جے پی سے متنفر ہوئے۔

روایتی طور بی جے پی یہاں شیو سینا کے ساتھ اتحاد کرتی تھی لیکن حالیہ برسوں میں یہ اتحاد بھی ٹوٹ گیا، ناقدین تو بی جے پی کی جانب سے شیو سینا میں پھوٹ ڈالنے کی کوششوں کا بھی الزام عائد کرتے ہیں۔ بی جے پی کا یہی طرز عمل اسے ووٹرز سے دور لے گیا۔

کرناٹکا میں بی جے پی نقصانات کے باوجود بھی کھڑی ہے

2019 کے انتخابات میں بی جے پی کرناٹکا کی 28 میں سے 25 نشستوں پر فاتح رہی تھی جبکہ این ڈی اے سے وابستہ دو دیگر امیدوار بھی نشستیں جیتے تھے، یہاں کانگریس کو صرف ایک نشست ملی تھی۔

ایگزٹ پولز 2024 کے انتخابات میں بھی 2019 والی صورتحال ہی دکھا رہے تھے لیکن ایسا نہ ہوا۔ 

بھارتی انتخابات: اپوزیشن اور حکومتی اتحاد نے کیا کھویا، کیا پایا؟
کرناٹکا بی جے پی کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے— فوٹو: رائٹرز

اگرچہ اس سال بھی بی جے پی ریاست کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے لیکن اس مرتبہ اسے صرف 17 نشستیں مل سکیں، اس کے برعکس کانگریس نے 9 اور جنتا دل (سیکیولر) نے 2 نشستیں حاصل کیں۔

کرناٹکا بی جے پی کیلئے اہمیت رکھتا ہے کیونکہ یہ بھارت کی واحد جنوبی ریاست ہے جو کبھی بی جے پی نے جیتی ہے۔

بھارت کی مشرقی ریاست پنجاب میں صورتحال بہتر رہی جہاں کانگریس کو 7 نشستیں ملیں۔

تامل ناڈو میں بھی بی جے پی صرف ایک نشست حاصل کرپائی جبکہ مغربی بنگال میں بھی بی جے پی ممتا بنر جی کے سامنے نہ ٹک سکی۔

ہریانہ اورجھاڑ کھنڈ میں ٹکر کا مقابلہ ہوا جبکہ بہار میں بھی کانگریس اتحاد کسی حد تک مضبوط ہوا۔

غریب نواز اور پیداوار دوست ایجنڈہ اپناتے ہوئے کانگریس کی جانب سے لگایا گیا نوجوان، خواتین، کسانوں اور مزدوروں کے لیے سماجی انصاف کا نعرہ بڑی حد تک کارگر ثابت ہوا ہے۔

کانگریس اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر بھی حکومت بنانے کی پوزیشن میں تونہیں تاہم یہ واضح ہو گیا ہے کہ کانگرس کا انڈیا اتحاد مودی کے نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کو اگلی بار کرارا جھٹکا دینے کی پوزیشن میں آگیا ہے۔