مالی: جینے کی تاریخی مسجد پر چھائے مسلح تنازعے کے سیاہ بادل

بر اعظم افريقا ميں سونے کے سب سے بڑے پروڈيوسرز ميں شمار ہونے کے باوجود مالی دنيا بھر ميں سب سے کم ترقی يافتہ ممالک ميں شامل ہے۔

وسطی مالی کے شہر جینے میں مٹی کی اينٹوں سے تعمير کردہ دنيا کی سب سے بڑی مسجد کی عمارت سن 2016 سے يونيسکو کی خطرے سے دوچار ثقافتی ورثے کی حامل عمارات کی فہرست ميں شامل ہے۔ 

ايک دور تھا جب جينے اسلامی تعليمات کا گڑھ سمجھا جاتا تھا اور يہ مسجد شہر کی شان مانی جاتی تھی۔ ہر سال دنيا بھر سے ہزارہا سياح اس کا رخ کرتے تھے،  البتہ اب مالی ميں حکومتی فورسز، جہادی گروہ اور کئی ديگر عسکریت پسند گروپوں کے مابين مسلح تصادم کے سياہ بادل اس مسجد اور اس سے جڑی تاريخ پر چھائے ہوئے ہيں۔

کولا باہ نے حالات کو اپنی زندگی پر اثر انداز ہوتے ديکھا ہے، وہ جينے ميں ٹور گائيڈ کے طور پر کام کيا کرتے تھے، کاروبار اچھا تھا، گزر بسر باآسانی ہو جاتا تھا۔ کولاباہ کے اب نو بچے ہيں اور حالات کافی بدل چکے ہيں۔ 

اب سياح نہيں آتے اور کولا باہ اکثر اوقات بے روزگار گھر پر بيٹھا رہتا ہے، جب اسے نقد رقم کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ اپنے مال مويشی فروخت کر کے کام چلا ليتا ہے۔ کولاباہ کہتا ہے کہ مقامی لوگوں کا یہ ماننا تھا کہ حالات کبھی نہ کبھی بہتر ہو جائيں گے۔

کولا باہ نے ایسوسی ايٹڈ پريس کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ليکن بہت وقت گزر چکا ہے اور اب لگتا ہے کہ يہ خواب ايک خواب ہی رہے گا‘۔

مالی: جینے کی تاریخی مسجد پر چھائے مسلح تنازعے کے سیاہ بادل
فوٹو: ڈی ڈبلیو/ جارجز اٹینو

جينے کا تاريخی شہر

جينے سب صحارا افریقا کے قدیم ترین قصبوں میں سے ایک ہے، کبھی يہ شہر ايک اہم منڈی کی حيثيت رکھتا تھا اور ٹرانس صحارن سونے کی تجارت میں بھی ایک اہم لنک کے طور پر مانا جاتا تھا۔ شہر کے پرانے حصے ميں اس دور کے تقریباً دو ہزار مکانات اب بھی کھڑے ہيں۔

'شہر کی عظیم مسجد‘ کو  1907 میں 13 ویں صدی کی ایک پرانی مسجد کی جگہ بنايا گيا تھا، مقامی لوگ ہر سال اس کی ’دیواروں پر پلستر‘ کرتے ہيں، یہ کہ اب ايک روايت بن چکی ہے جو پورے کے پورے شہر کو ساتھ لاتی ہے۔

مالی کا تنازعہ کب اور کيسے شروع ہوا؟

مالی کا تنازعہ 2012 میں ایک بغاوت کے بعد شروع ہوا جس ميں طاقت کا ايک خلا سامنے آيا۔ يوں جہادی گروپوں نے شمالی علاقوں پر قبضہ کر ليا۔ فرانسیسی قیادت میں کيے گئے فوجی آپریشن نے جہاديوں کو شہروں سے باہر دھکیل دیا، ليکن يہ کاميابی زيادہ طويل ثابت نہ ہوئی۔

جہادیوں نے دوبارہ منظم ہو کر مالی کے شہروں اور فوجی اڈوں پر حملے شروع کر دیے، ساتھی ہی اقوام متحدہ، فرانسیسی اور علاقائی افواج کو بھی نشانہ بنايا گيا۔ عسکریت پسندوں نے القاعدہ اور داعش سے بیعت کا اعلان کر ديا۔

مالی: جینے کی تاریخی مسجد پر چھائے مسلح تنازعے کے سیاہ بادل
فوٹو: ڈی ڈبلیو/ جارجز اٹینو

موجودہ حالات

مالی کے دارالحکومت بماکو ميں نيشنل ٹورازم ايجنسی کے ڈائريکٹر سيدی کيٹا کا کہنا ہے کہ تشدد بڑھنے کے بعد سياحت ميں بھی تيزی سے کمی آئی۔ بر اعظم افريقا ميں سونے کے سب سے بڑے پروڈيوسرز ميں شمار ہونے کے باوجود مالی دنيا بھر ميں سب سے کم ترقی يافتہ ممالک ميں شامل ہے۔ ملک کی تقريباً 22 ملين کی آبادی کا نصف حصہ غربت کی لکير سے نيچے زندگی گزار رہا ہے اور سياحت ميں کمی کے بعد مقامی لوگوں کے پاس مواقع انتہائی محدود ہيں۔

وسطی و مغربی افريقی ممالک ميں سياسی عدم استحکام کی لہر ميں 2020 سے اب تک مالی ميں دو مرتبہ پھر بغاوت کی کوشش ہو چکی ہے۔ 2021ء ميں کرنل اسيمی گوئيٹا نے مالی ميں معاملات سنبھالے تو فرانسيسی امن دستوں کو اگلے سال بے دخل کر ديا اور اس سے اگلے سال اقوام متحدہ کے امن دستوں سے بھی کہہ ديا کہ وہ اپنا 10 سالہ امن مشن قبل از وقت ختم کريں۔

گوئيٹا کا دعویٰ ہے کہ وہ مسلح گروہوں کو کچل ديں گے مگر دفاعی تجزيہ کاروں کے بقول دراصل وہ جنگ ہار رہے ہيں اور دن بدن علاقے ان کے کنٹرول سے نکلتے جا رہے ہيں۔ ايسے ميں جينے کی تاريخی مسجد جيسے ثقافتی مراکز کو خطرہ لاحق ہے۔

یہ تحریر ابتدائی طور  پر ڈی ڈبلیو اردو میں شائع ہوئی۔