بلاگ

کرکٹ ٹیم، بڑی سرجری کی ضرورت

قارئین یہ مہینہ بجٹ کا ہے اور میرا خیال تھا کہ اس حوالے سے ہی کچھ لکھوں گا، بزرگ شہریوں کا اصراربھی تھا کہ ای او بی آئی پنشن کے حوالے سے وفاقی حکومت کو یاد کرایا جائے،ارادہ بھی تھا لیکن گزشتہ اتوار جو نیند خراب کی اور اپنی توقع کے مطابق نتیجہ بھی دیکھ لیا اس کے باوجود یہ کہ میں اور میرے جیسے ہزاروں پاکستانی دعا بھی کر رہے تھے،لیکن اگر آپ خود ہمت اور کوشش نہ کریں تو آپ کی جگہ کوئی دوسرا تو کچھ نہیں کر سکتا۔

محترم ذکاء اشرف (سابق چیئرمین بورڈ) نے دبئی میں ٹیم کے سامنے کہا کہ گروہ بندی ہے اسے فوری طور پر ختم کریں ورنہ ٹیم کی کارکردگی بہتر نہ ہو سکے گی۔پاکستا نی ٹیم کی بدقسمتی تو دیکھیں آدھی ٹیم سے بابر اعظم بات نہیں کرتے اور آدھی ٹیم بابر اعظم سے بات نہیں کرتی اور میچ جاری ہے ایک دوسرے کی شکل دیکھتے ہیں کبھی کاٹ بے ہائنڈ دی وکٹ کی اپیل کرنا ہو تو وہ جو پیچھے سے اس کو جواب ہی نہیں ملتا وکٹ کیپر سے کہا کہ یہ سہی ہے یا غلط۔ 

2دفعہ وکٹ کیلئے بابر اعظم چاہتے تھے کہ کاٹ بی ہائنڈ کی اپیل کریں تو رضوان نے جواب ہی نہیں دیا یہاں تک کہ ٹائم گزر گیا اور کمنٹیٹر نے کہا کہ یہ کیسی ٹیم ہے جس میں ایک دوسرے کے درمیان کوئی کمیونیکیشن نہیں ہے ۔ کوئی کھلاڑی بھی سیریس ہو کر نہیں کھیلتا تو ایسی ٹیم کیسے کوئی ٹورنامنٹ جیتے گی اور شکایت ہونے کے باوجود کوئی ایکشن ہی نہیں لیا گیا۔ کسی کو نکالا ہی نہیں گیا کہ بھئی تم ٹیم میں ایک دوسرے سے کیوں باتیں نہیں کرتے ۔شاہد آفریدی کہہ رہے ہیں کہ میں ٹورنامنٹ کے بعد بتائوں گا تو اس وقت کیا فائدہ ہوگا ۔جب چڑیا چک گئیں کھیت اور جب ہم ہار چکے ہوں گے اور ہارنا تو دور کی بات ذلت کی ہار ہو رہی ہے۔

لاکھوں روپے لینے کے باوجود کرکٹرز کی کوئی کارکردگی نہیں ۔اس وقت ضروری ہے کہ سخت ایکشن لیاجائے صرف کیپٹن نہیںبلکہ جو کھلاڑی اس گروپ بندی کاحصہ ہیں ان کو تبدیل کیا جائے۔پی ایس ایل سے نکلنے والے بعض کھلاڑی آج ٹیم میں بیٹھ کر اپنی اپنی شرائط منوا رہے ہیں کہ کون سی پوزیشن پر ہمیں کھلایا جائے اور کون سی پوزیشن پر نہ کھلایا جائے ۔کپتان ایسا لایا جائے جو ٹیم کو بھی جوڑ کر رکھے اور اس کی کارکردگی بھی اچھی ہو۔ آج کل کمپیوٹر کا زمانہ ہے ،کمپیو ٹر بتا دیتا ہے کہ آپ کی کارکردگی کیا ہے اور کس کس کی کیا کارکردگی ہے ۔ اس کو چیک کریں جیسے کے آسٹریلیا اور انگلینڈ میں ہوتا ہے۔ اگر امریکہ اور پاکستان کرکٹ کے میچ کی بات کی جائے تو امریکی ٹیم والے بہت ہی پر اعتماد تھے۔ 

امریکی ٹیم کسی بھی لحاظ سے نو آموزنظر نہیں آئی۔ اس ٹیم کے کھلاڑیوں نے کھیل کے تینوں شعبوں بالنگ، بیٹنگ اور فیلڈنگ میں بھی پاک ٹیم کو چت کر دیا۔بابراعظم نے بگڑے حالات میں ایک اینڈ سنبھالنے والی کرکٹ کھیلی، لیکن دوسری طرف سے کھلاڑی آؤٹ ہوتے چلے گئے اور پھر خود بابراعظم کو ہمت کرنا پڑی اور ایک اینڈ روکنے کی وجہ سے وہ تیز اسکور نہ کر سکا۔چلیں مان لیتے ہیں کہ شاہین اتنا لڑے، اتنا لڑے کہ بات سپراوور پر چلی گئی اور یہ سپر اوور شاہینوں کیلئے پروانہ ثابت ہوا، محمد عامر بہتر گیندیں کرکے پھر کنٹرول نہ کر سکے، وائیڈ بال کرنے کے علاوہ بلاک ہول میں باؤلنگ نہ کر سکے اور اس کے بعد آخر میں چوکا بھی کھا لیا، دوسری طرف افتخار احمد پر زیادہ بھروسہ کرکے اس کے ساتھ فخر کو کھیلنے کیلئے بھیجا جو ایک بھی گیند کھیلے بغیر واپس آ گیا یوں یہ سپراوور امریکی ٹیم ہی کیلئے سپر بن گیا اور وہ جیت گئی۔ 

اول تو فخر کے ساتھ افتخار کو بھیجنا ہی درست نہیں تھا اور اگر یہ سوچا گیا تھا تو ابتدا فخر سے کرائی جاتی، اس کے علاوہ یہ زیادہ بہتر ہوتا کہ فخر کے ساتھ عثمان خان کو بھیجا جاتا اور محمد عامر کی بجائے نسیم شاہ اوور کرتے کہ نسیم شاہ نے میچ میں بہت کم اسکور دے کر وکٹ حاصل کی تھی۔ اب ضرورت اوورہالنگ کی ہے ۔افسوس تو یہ ہے کہ اعظم خان کی بری کارکردگی کے باوجود اُسے ٹیم میں شامل کیا گیا۔ وہ پھر صفر لے آیا کہ اس میں فٹ ورک کی کوئی بات نہیں۔

ایسا ہی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے سب سے بڑے میچ میں دیکھنے کو ملا جب انڈیا نے پاکستان کو 6 رنز سے شکست دیدی۔ پاکستان کو جیت کیلئے 120 رنز درکار تھے تاہم پاکستان7 وکٹوں کے نقصان پر صرف 113 رنز بنا سکا۔ یہ میچ نیو یارک کی ایک ایسی پچ پر کھیلا گیا تھا جہاں بلے بازوں کیلئے اسکور کرنا بہت مشکل تھا۔ ایسے میں پاکستانی بیٹرز شاید صحیح موقع پر جارحانہ انداز اپنانے میں ناکام رہے اور یوں صرف 6رنز سے شکست کھا بیٹھے۔ امریکہ کے شہر نیویارک میں روایتی حریف انڈیا اور پاکستان کے میچ کا چرچا ورلڈ کپ کے شیڈول کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا اور دنیا بھر سے شائقین نے 9 جون کو ہونے والے اس مقابلے کیلئے اسٹیڈیم کو بھر دیا تھا۔

اس میچ میں پاکستان کیلئے جتنی اچھی باتیں ہو سکتی تھیں سب ہوئیں، میچ سے پہلے بارش ہوئی، پاکستان نے ٹاس جیتا، انڈیا کو مقررہ 20 اوورز میں 119 رنز پر آل آؤٹ کر دیا، بابر اور رضوان کے کیچ بھی چھوٹے اور معمولی سے ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے 12 اوورز میں پاکستان نے 2وکٹوں کے نقصان پر 72 رنز بھی بنا لئے تھے اور اس کے باوجود پھر بھی گرین شرٹس یہ میچ نہیں جیت سکے۔جس ٹیم کے اندر 7سلیکٹرز ہوںاور کوچ بھی غیر ملکی ہو پھر بھی وہ ہارے توسوال تو بنتا ہے۔ میرے خیال میں بورڈ میں تبدیلی لانی ضروری ہے ۔موجودہ چیئر مین پی سی بی بڑی سرجری کا کہہ چکے ہیں ۔مگرکیا تب کریں گے جب ٹیم ہار کر واپس آئے گی؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔