Time 25 جون ، 2024
بلاگ

عدم استحکام اور عزم استحکام

یہ بات نہایت خوش آئند ہے کہ آخر کار ملک میں عدم استحکام کے خاتمہ کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ یہ تو طے شدہ امر ہے کہ کوئی بھی ملک استحکام کے بغیر معاشی میدان میں ترقی نہیں کر سکتا اس لیے گزشتہ روز اپیکس کمیٹی نے ملک میں جاری عدم استحکام کو ختم کرنےکیلئے’’ عزم استحکام آپریشن‘‘کا فیصلہ کیا جس کی منظوری بھی دیدی گئی ہے۔

 اپیکس کمیٹی کے اس اجلاس میں جس کی صدارت وزیر اعظم شہباز شریف نے کی، وفاقی وزراء ، گلگت بلتستان سمیت چاروں صوبوں کےوزرائےاعلیٰ ، گورنرز، چیف سیکرٹریز، سروسز چیفس ،اعلیٰ فوجی اور سول افسران نے شرکت کی ۔ اپیکس کمیٹی کے اس اجلاس کے بعد جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ کمیٹی نے انسداد دہشت گردی کی جاری مہم اور داخلی سلامتی کا جائزہ لینے کے بعد مکمل اتفاق رائے کے ساتھ ایک نئے اور ٹھوس قومی انسداد دہشت گردی آپریشن ’’عزم استحکام‘‘ کی منظوری دی ہے ۔

 یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ دہشت گردی سے متعلق وہ تمام قانونی سقم دور کئے جائیں گے جو ملوث افراد کو مثالی سزائیں دینے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ یہ نکتہ بہت اہم اور فوری قابل توجہ ہے کہ ان تمام قانونی سقم کا فائدہ ملزموں کو پہنچتا ہے اور وہ رہا ہوجاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قانونی رکاوٹوں کا خاتمہ عزم استحکام آپریشن کی کامیابی کیلئے ایک بنیادی عنصر ہے۔

قانونی سقم کی وجہ سے رہا ہو نیوالوں کے حوصلے مزید بلند ہو جاتے ہیں اور وہ دیگر ساتھیوں کے ساتھ ایک بار پھر بلا قانونی خوف و سزا کے سرگرم ہو جاتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ملک میں دہشت گردی کی واردات کرنیوالوں، ان کے سہولت کاروں اور ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کسی بھی طرح کوشش کرنے والوں کے خلاف فوری سخت قوانین بنائے تا کہ کوئی بھی ملوث فرد سخت ترین سزا سے بچ نہ سکے ۔

آپریشن عزم استحکام ملکی سلامتی اور بقا کیلئے انتہائی ضروری ہے اوراس میں پاک فوج، انٹیلی جنس اور تمام سکیورٹی اداروں کا اہم اور بنیادی کردار ہوگا ۔ یہ خوش آئند ہے کہ تمام صوبائی وزرائے اعلیٰ بشمول گلگت بلتستان کے وفاقی حکومت اور افواج پاکستان کے ساتھ اس آپریشن کے لئے ایک آواز اور ایک صفحہ پر ہیں اور کیوں نہ ہوں کہ یہ ملک و قوم کی سلامتی کا معاملہ ہے۔

اس  میں کسی کو ذرہ بھر شک نہیں ہونا چاہئے کہ ملک میں عدم استحکام کے خاتمے کیلئے عزم استحکام آپریشن ضرور ہوگا ۔ ملک کی معاشی ترقی کی بنیاد استحکام میں پنہاں ہے۔ پاک فوج اور انٹیلی جنس ادارے پہلے ہی ملکی سلامتی اور دہشت گردی کے ناسور کو ختم کرنے کیلئے جانوں کے نذرانے پیش کرتے رہے ہیںاور اس سلسلے میں کئی کامیاب کارروائیاں بھی کی ہیں۔ انٹیلی ایجنسیوں کی ماہرانہ کوششوں سے پاک فوج نے بعض کارروائیوں میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں میں گھس کر بھی ان کے اہم کمانڈرز اور ان کے ساتھیوں کو انجام تک پہنچایا ہے۔ اب عزم استحکام آپریشن کے ذریعے ملک بھر میں دہشت گردوں اور انکے سہولت کاروں کا بھر پور انداز میں قلع قمع کیا جائے گا۔

دوسری طرف پاکستان نے اقوام متحدہ سےبھی مطالبہ کیا ہے کہ بار بار مطالبوں کے باوجود افغان عبوری حکومت نے وہاں موجود دہشت گرد تنظیموں کے خلاف موثر کارروائی نہیں کی ہے۔ کالعدم ٹی ٹی پی آئے روز بلوچستان اور کے پی کے میں سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنا رہی ہے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اب بھی 23 دہشت گرد تنظیمیں افغانستان میں موجود ہیں لیکن افغان عبوری حکومت نے متعدد مطالبوں اور دوحہ معاہدے کے باوجود کوئی ایسی ٹھوس کارروائی نہیں کی کہ جس سے ان دہشت گردوں کا افغانستان سے مکمل خاتمہ ہو جائے ۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ افغان سرزمین پر موجود دہشت گرد خطےکیلئے بڑا خطرہ ہیں لیکن افغان عبوری حکومت نے اس معاملے پر آنکھیں بند کررکھی ہیں۔

عزم استحکام آپریشن صرف ان لوگوں کے خلاف شروع کیا جا رہا ہے جو ملک میں دہشت گردی، انتہا پسندی پھیلانے اور عدم استحکام پیدا کرکے ملک کو معاشی طور پر کمزور اور فساد و انارکی پیدا کرنا چاہتے ہیں پھر یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ کچھ لوگ اس آپریشن کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں۔ یہ تو ملک وقوم کی سلامتی اور معاشی ترقی کا معاملہ ہے پھر مخالفت کیوں؟ کوئی کہتا ہے ہمیں یہ آپریشن منظور نہیں ہے کوئی تو اپیکس کمیٹی کی حیثیت کو چیلنج کرتاہے۔

 قومی اسمبلی میں اس آپریشن کے خلاف احتجاج ہوتا ہے۔ مخصوص جماعت نے تو اپنے وزیراعلیٰ جو آپریشن کا فیصلہ ہوتے وقت ایپکس کمیٹی میں موجود تھے ،کو پوچھ گچھ کیلئے بلایا۔ مولانا فضل الرحمان بھی ماضی کو بھول کر اس جماعت کے ہمنوا بن گئے لیکن وہ بہت زیرک سیاستدان ہیں وہ تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو کے بعد حتمی فیصلہ کر یں گے۔

 مخصوص جماعت والےایک طرف آپریشن عزم استحکام کی مخالفت کرتے ہیں اور دوسری طرف مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کیمرہ اجلاس میں آپریشن کے بارے میں بتایا جائے تاہم وفاقی وزیر قانون نےان کیمرہ اجلاس کا مطالبہ ماننے کا عندیہ بھی دیدیا ہے لیکن مخصوص جماعت حسب روایت ایسے اجلاس کے بعد بھی میں نہ مانوں والی پالیسی جاری رکھے گی۔ ان کا مؤقف تو یہ ہے کہ بانی جماعت کی رہائی ہی تمام مسائل کا حل ہے۔ ورنہ ملک میں استحکام نہیں ہوگا۔ اس کا مطلب بہت واضح ہے۔ 

عزم استحکام آپریشن کی مخالفت یا تو کسی کو خوش کرنے کیلئے ہے یا اپنے مفادات کیلئے۔ لیکن عزم استحکام آپریشن کی متفقہ منظوری دی جاچکی ہے اور یہ آپریشن ضرور ہوگا جس سے دودھ کا دودھ ا ور پانی کا پانی ہو جائے گا ۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔