29 جون ، 2024
پاکستان میں سکیورٹی سے متعلق چین کی تشویش کے بعد حکومت حرکت میں آئی۔ متحدہ عرب امارات میں افغان طالبان کے ایک اہم رہنما سے ٹی ٹی پی کے مسئلے پر ایک پاکستانی اہم شخصیت کی ملاقات ہوئی لیکن شاید یہ بے نتیجہ ثابت ہوئی جس کی وجہ سے حکومت کو نیشنل ایکشن پلان کی فائلوں پرسے گرد ہٹانی پڑی۔
لمبے عرصے بعد ایپکس کمیٹی کا اجلاس ہوا اور اجلاس میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمدکیلئے عزم استحکام پاکستان کے نام سے ایک نئی ہمہ گیر مہم کے آغاز کا فیصلہ ہوا ۔ حکومت نے غلطی یہ کی کہ عزم استحکام پاکستان کے ساتھ آپریشن کا لفظ بھی لگا دیا اور چونکہ لوگوں کو علم ہے کہ ہر پختون ملٹری آپریشن کے لفظ سے الرجک ہے، اس لئے جے یو آئی اور پی ٹی آئی میں اس کی مخالفت کا مقابلہ شروع ہوا جس کی وجہ سے اگلے دن وزیراعظم کو خود وضاحت کرنا پڑی کہ کوئی نیا آپریشن شروع نہیں ہورہا بلکہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے ساتھ ساتھ ٹارگٹڈ آپریشن کو مربوط بنانے کی کوشش ہورہی ہے۔
سوات آپریشن سے قبل مولانا فضل الرحمان نے متنبہ کیا تھا کہ طالبان اسلام آباد کے قریب پہنچ گئے ہیں اور اب ان کا کہنا ہے کہ ڈی آئی خان اور نواحی اضلاع پر قبضے کے بعد اگر یہ صورت حال رہی تووہ عنقریب پورے صوبے کو اپنے کنٹرول میں لے لیں گے لیکن یہ کہہ کر مولانا فضل الرحمان آپریشن کی بھرپور مخالفت بھی کررہے ہیں ۔
اب ایک طرف مخالفت کرنے والی جماعتیں طالبان کی موجودگی کا رونا بھی رو رہی ہیں اور دوسری طرف عوامی رائے کو دیکھ کر فوجی آپریشن کی مخالفت بھی کررہی ہیں لیکن کوئی متبادل حل بھی تجویز نہیں کررہا۔حالانکہ میں کل بھی یہی کہہ رہا تھا کہ مسئلے کا حل مذاکرات ہیں اور آج بھی یہی کہہ رہا ہوں۔آپریشن سے کل مسئلہ حل ہوا تھا اور نہ آج حل ہوگا ۔
ابھی تک ٹوٹل بارہ بڑے آپریشن ہوئے ہیں جن میں آپریشن المیزان ، آپریشن راہ حق، آپریشن زلزلہ، آپریشن صراط مستقیم، آپریشن شیردل، آپریشن راہ راست، آپریشن بلیک تھنڈر سٹارم، آپریشن بریخنہ، آپریشن راہ نجات، آپریشن کوہ سفید ، آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد قابل ذکر ہیں۔ ان آپریشنوں کے نتیجے میں مقامی لوگ بے گھر اور بے در ہوئے ۔ ان کے گھر اور حجرے مسمار ہوئے لیکن جواب میں ابھی تک وزیرستان کے لوگوں کے گھر دوبارہ پوری طرح تعمیر نہیں ہوئے ہیں ۔ اسی لئے وہ آپریشن کا نام سنتے ہی کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں ۔
خیبر پختونخوا کے لوگوں کے شک کی دوسری وجہ یہ ہے کہ انہوں نے گزشتہ بیس سال میں یہ دیکھا ہے کہ ایک طرح کے طالبان یعنی افغان طالبان کی سرپرستی ہورہی ہے اور دوسری طرح کے طالبان یعنی پاکستان طالبان سے جنگ ہورہی ہے ۔اس لئے بھی وہ حکومتی اقدامات کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔کیونکہ عام لوگ تو افغان اور پاکستانی طالبان میں تفریق نہیں کرسکتے تھے اس لئے آج ایمل ولی خان جیسے لوگ بھی یہ الزام لگارہے ہیں کہ سیکورٹی فورسز عسکریت پسندوں کی سرکوبی میں سنجیدہ نہیں ۔
اگر ایک درجن آپریشن ہوئے ہیں تو ٹی ٹی پی کے ساتھ معاہدے بھی کم نہیں ہوئے ۔ شکئی معاہدہ، سرہ روغہ معاہدہ، سوات معاہدہ اور اسی طرح کے کئی معاہدے ہوئے لیکن ان کے نتیجے میں بھی مسئلہ حل نہیں ہوا ۔ جب ہم جیسے لوگ مذاکرات کی بات کرتے ہیں تو معترضین اعتراض اٹھاتے ہیں کہ پہلے کونسے مذاکرات سے مسئلہ حل ہوا ہے جو ابھی حل ہوجائے گا حالانکہ ان بیس سالوں میں مذاکرات اور آپریشن اس لئے ناکام ہوتے رہے کیونکہ ریاست پاکستان کی پالیسی ڈبل گیم پر مبنی تھی اور جن لوگوں نے اس پالیسی کو ترتیب دیا اور چلایا ، وہ ان ہزاروں لوگوں کے قتل کے ذمہ دار بھی ہیں ۔
دوسری مصیبت یہ رہی کہ ماضی میں کبھی ” کُل“ کے خلاف آپریشن نہیں ہوا بلکہ جزو کے خلاف ہوتا رہا ۔ ایک جگہ آپریشن ہوتااور دوسری جگہ جنگ بندی ہوتی ۔ اسی طرح مذاکرات بھی کبھی اس لئے نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے کیونکہ وہ بھی ہمیشہ جزوی سے ہوتے رہے ۔ ان مذاکرات کی ناکامی کی ایک اور وجہ یہ تھی کہ ہونے والے معاہدوں کے گارنٹر نہیں ہوتے تھے ۔ اب اگر مذاکرات ہوں گے تو امارات اسلامی افغانستان کو بطور گارنٹر شامل کیا جاسکتا ہے ۔
لوگ سمجھتے ہیں کہ اس وقت فضا مذاکرات کیلئے سازگار نہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جتنی آج سازگار ہے پہلے کبھی نہیں تھی ۔ اس وقت تحریک طالبان ایک قیادت تلے متحد ہوچکی ہے اور اگر قیادت سے بات ہوجائے تو اس کا سب پر اطلاق ہوگا۔مذاکرات کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار اس پر بھی ہوتا ہے کہ وہ کونسے لوگوں کے ذریعے کئے جاتے ہیں ، اس لئے طالبان کے ہاں قدر و منزلت رکھنے والے پختونوں کا ایک جرگہ بنایا جائے اور وہ امارات اسلامی کے ذریعے ٹی ٹی پی سے براہ راست مذاکرات کرے ۔
ٹی ٹی پی سے خود بات نہ کرنے کی ضد اب چھوڑ دینی چاہئے کیونکہ جس وقت انہیں امارات اسلامی کے ذریعے مجبور کیا جاسکتا تھا وہ وقت اب گزر گیا ہے ۔ دوسرا جب اس ریاست کے نمائندے جنرل فیض حمید نے پہلے ان سے براہ راست مذاکرات کئے ہیں تو اب براہ راست مذاکرات کرنے میں کیا حرج ہے۔
ہاں یہ مذاکرات فوج کو نہیں کرنے چاہئیں کیونکہ مذاکرات فوج کا کام نہیں لیکن ان مذاکرات کو فوج کی مکمل بیکنگ ہونی چاہئے ۔مجھے امید ہے کہ اگر پورے خلوص اور ریاست کی مکمل بیکنگ اور امارات اسلامی کے تعاون سے مذاکرات کئے جائیں تو مثبت نتیجہ ضرور برآمد ہوگا ۔ اگر امریکہ اور طالبان کا مسئلہ بات چیت کے ذریعے حل ہوسکتا ہے تو پاکستانی حکومت اور پاکستانی طالبان کا کیوں نہیں ہوسکتا ؟۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔