Time 01 جولائی ، 2024
بلاگ

امریکا کی نائب صدر کاملاہیرس جیت کیلئے پُر اعتماد

امریکا کی نائب صدر کاملا ہیرس پُراعتماد ہیں کہ ری پبلکن حریف ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست دے کر جو بائیڈن دوبارہ صدر منتخب ہونے میں کامیاب ہوجائیں گے لیکن انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ جیت کی راہ آسان نہیں ہوگی۔

کاملا ہیرس نے یہ بات ریاست کیلی فورنیا کے علاقے بریڈ بری میں فنڈریزنگ تقریب سے خطاب میں کہی جس کا اہتمام پاکستانی امریکن ڈیموکریٹ ڈاکٹرآصف محمود کی رہائش گاہ پر کیا گیا تھا۔

امریکی تاریخ میں ممکنہ طور پر یہ پہلا سیاسی ایونٹ تھا جس میں موجودہ نائب صدر نے کسی پاکستانی امریکن شخصیت کے گھر فنڈریزنگ تقریب سے خطاب کیا۔

تقریب کے میزبانوں میں پاکستانی امریکن کاروباری شخصیت تنویر احمد بھی شامل تھے جنہوں نے حال ہی میں ڈونلڈ ٹرمپ کے اعزاز میں منعقد تقریب میں سابق صدر سے پاکستان کی صورتحال پر بات چیت کی تھی۔

تقریب میں تقریباً50 شخصیات مدعوتھیں جن میں سے ہر شخص نے بائیڈن وکٹری فنڈ کیلیے بھاری رقوم دیں، مہمانوں کے بیٹھنے کا انتظام گھرکے عقبی حصے میں سوئمنگ پول کے اطراف کیا گیا تھا۔ گوروں سمیت سب کی تواضع مٹرپلاؤ، بھنڈی، نہاری، بٹرچکن، گلاب جامن، گاجرکا حلوہ اور لسی جیسے روایتی کھانوں اور مشروبات سے کی گئی، آخر امریکا کی نائب صدر کا خاندانی تعلق بھارت سے ہے۔

اپنے خطاب میں امریکا کی نائب صدر نے ڈاکٹرآصف محمود سے اپنی دیرینہ دوستی کا خصوصی ذکر کیا، کاملا ہیرس نے کہا کہ میں اپنے دوست ڈاکٹرآصف محمود کی شکرگزارہوں، جہاں تک مجھے یاد ہے،15 برسوں سے وہ مجھے سپورٹ کررہے ہیں اور میں ان کے تعاون پرہمیشہ پرجوش رہی ہوں،جو کچھ انہوں نے میرے لیے کیا ہے، اسکے لیے بے حد ممنون ہوں۔

12منٹ پر محیط اپنے خطاب کے تقریباً3 منٹ کاملا ہیرس نے ڈاکٹر آصف سے اپنے گہرے تعلق کے اظہار پر صرف کیے اور کہا کہ انکے خیال میں بحیثیت نائب صدر وہ تیسری بار اس گھر میں آئی ہیں۔

ساتھ ہی گھر کے بائیں حصے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے نائب صدر نے کہا کہ دو بار تو خطاب کیلئے پوڈیم اُس حصے میں رکھا جاتا تھا،  ڈاکٹر آصف محمود نے لقمہ دیا کہ اس بار شام ساڑھے 6 بجے تک تیز دھوپ موجود ہونے کی وجہ سے پوڈیم برآمدے کے دوسری جانب رکھا گیا ہے۔

یہ ایونٹ بائیڈن ٹرمپ پہلے مباحثے سے ایک روز پہلے رکھا گیا تھا، زیادہ تر شرکا ذہنی طورپر تیار تھے کہ بائیڈن اپنی پیرانہ سالہ اور گرتی ہوئی یادداشت کے سبب اچھا پرفارم نہیں کرسکیں گے اور یہ بھی کہ ٹرمپ تیزو تند جملوں سے انہیں اُڑا کررکھ دیں گے۔

کاملاہیرس نے پورے اعتماد سے کہا کہ ہم جیت جائیں گے، یہ آسان تو نہیں ہوگا مگر جیتیں گے ہم ہی۔

ووٹنگ کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے امریکا کی نائب صدر نے کہا کہ یہ وہ الیکشن ہے جو سمت متعین کرے گا کہ امریکی شہری کس قسم کا ملک دیکھنا چاہتے ہیں اور بحیثیت ملک ہماری اقدار کیا ہیں۔

4 سال پہلے امریکی شہریوں نے اپنی سوچ کا اظہار ڈونلڈ ٹرمپ کو الیکشن میں مسترد کرکے کیا تھا، اس باردنیا یہ جاننے کیلئے  بے صبری سے منتظر ہے کہ آیا امریکی شہری اس بار بائیڈن کو دوسری بار صدر دیکھنا چاہتے ہیں بھی یا نہیں؟

اسرائیل کی فلسطینیوں پرمسلط بھیانک ترین جنگ میں تل ابیب کی مکمل حمایت کے سبب بعض ڈیموکریٹس پچھلے ایک برس میں امریکی صدر کی پالیسیوں سے متنفر ہوچکے ہیں۔ تاہم وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اسرائیل کے معاملے پر ڈونلڈ ٹرمپ بھی مختلف پالیسی نہیں اپنائیں گے۔

کاملا ہیرس نے خطاب میں غالباً اسی سبب کہا کہ ہم اس بات سے واقف ہیں کہ امریکا کن امور کی نمائندگی کرتا ہے، خامیاں ہوسکتی ہیں، ممکن ہے ہم کامل نہ ہوں لیکن جب اس الیکشن کی اہمیت کی بات ہواور یہ کہ داؤ پر کیا کچھ لگا ہوا ہے تو سوچنا چاہیے کہ اس الیکشن کے اثرات نہ صرف امریکی عوام بلکہ دنیا بھر پر ہوں گے۔

زیادہ ترسروے کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ 5  نومبر کو ہونے والا الیکشن معرکہ باآسانی جیتنے کی پوزیشن میں ہیں, سوال یہ ہے کہ آیا بائیڈن اور ہیرس اپنی پالیسیوں سے ناراض ووٹرز کو منا کر اپنے حق میں ووٹ ڈلوا سکیں گے؟ کیونکہ یہی ووٹر اس بار پانسہ پلٹ سکتے ہیں۔

امریکا میں پاکستانی ووٹرز کا تو ذکر ہی کیا،خود مسلم ووٹرز کی تعداد بھی آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ سونے پہ سہاگہ یہ ہے کہ پاکستانی ووٹرز کی اکثریت پولنگ اسٹیشن جانا گوارا ہی نہیں کرتی۔ نائب صدر اس حقیقت سے واقف ہیں جب ہی انہوں نے احساس جگانے کے لیے کہا کہ امید ہے ہر شخص اپنے ووٹ کی اہمیت جانتا ہے اور یہ بھی کہ ووٹ آپ کی اس سوچ کا ترجمان ہوتا ہے کہ آپ کس قسم کے ملک میں رہنا چاہتے ہیں۔

جب ووٹنگ کی بات ہو تو اس میں شک ہی نہیں کہ امریکی ووٹرز کے ذہن میں سب سے پہلے معیشت ہوتی ہے،  فوربز میگزین کے مطابق ٹرمپ کے دور میں معیشت زیادہ بہتر تھی تاہم بائیڈن نے بھی ووٹرز کو خوش کرنے کے لیے بعض اقدامات کیے ہیں۔

کاملا ہیرس نے کہا کہ ایک طرف ہمارے صدر ہیں جو اپنا سارا وقت یہ سوچنے میں صرف کرتے ہیں کہ کس طرح لوگوں کی حالت اور زندگیوں کو بہتر بنایا جائے اوراس کے لیے وہ نوکریوں کے مواقع پیدا کررہے ہیں،زیادہ سے زیادہ لوگوں کو مڈل کلاس میں لانا چاہ رہے ہیں۔دوسری جانب سابق صدر ہیں جو صرف اپنے بارے میں فکر مند رہتےہیں اور ذاتی مفاد ہی انکے مدنظر رہتا ہے۔

الیکشن میں امیگریشن بھی بڑاایشو ہے، دوبارہ انتخاب کی صورت میں ڈونلڈ ٹرمپ واضح کرچکے ہیں کہ وہ غیرقانونی طورپر نقل مکانی کرکے امریکا آئے لاکھوں افراد کو ملک سے نکالنے کے لیے نیشنل گارڈ کی خدمات لیں گے،  وہ ایسے افراد کو حملہ آور، جانور تک کہہ چکے ہیں اور یہ بھی کہ ان لوگوں نے امریکا کے خون کو زہر آلود کردیا ہے۔

ان متنازعہ بیانات نے امیگرینٹ کمیونٹی کو دہشت زدہ کردیا ہے کیونکہ امریکا میں انتہائی دائیں بازو کی لہر کو ان بیانات نے تقویت دی ہے،شاید یہی ذہن میں تھا جو کاملا ہیرس نے اپنا مقدمہ پیش کیا۔

کاملا ہیرس نے کہا کہ بنیادی بات آزادی ہے، نفرت اور تعصب سے آزادی اور وہ بھی ایک ایسی دنیا میں جہاں یہ انتہا پسند ہمارے ملک کو نفرت پھیلا کر تقسیم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

تقریب کے بعد کاملاہیرس نے ڈرائینگ روم میں چیدہ چیدہ شخصیات سے ملاقات کی، میزبانوں میں سے ایک پاکستانی امریکن کاروباری شخصیت تنویر احمد نے نائب صدر سے اسی موقع پر پاکستان سے متعلق اہم ترین سوال پوچھا۔

آبائی وطن پاکستان میں کسان کے گھرپیدا ہوکر امریکا بھر میں روز بروز بڑھتے کاروبار کی مثالی کہانی بتا کرتنویر احمد نے کہا کہ وہ دونوں ملکوں کے تعلقات کی نوعیت سے خوش نہیں۔

تنویر احمد نے اس نمائندے کو بتایا کہ انہوں نے کاملاہیرس سے کہا کہ انہیں گلہ ہے کہ امریکا میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں،دونوں ملک طویل عرصے سے ساتھ رہے ہیں، تعلقات میں اتارچڑھاؤ بھی آئے لیکن ایک دوسرے  کیلئے بہت کچھ کیا بھیآخرایسا کیوں ہے کہ پاکستان پراعتماد نہیں اور اس کے بارے میں بدگُمانیاں رہتی ہیں۔

انہوں نے اس بات پر افسوس ظاہر کیا کہ پاکستان کومحض انسداد دہشتگردی یا سکیورٹی کے پہلووں سے دیکھا جاتا ہے، اس پرالزام تراشی ہوتی ہے اور حد یہ کہ اسکا مؤقف سنا تک نہیں جاتا۔

افغانستان سے متعلق یوایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس کی حالیہ رپورٹ کا تذکرہ کرتے ہوئے تنویر احمد نے نائب صدر سے کہا کہ اس میں زور دیا گیاہے کہ انسداد دہشتگردی کیلئے پاکستان اور امریکا کے درمیان تعاون کا احیا ہونا چاہیے، اس رپورٹ میں ساتھ ہی یہ بھی جڑ دیا گیا ہے کہ پاکستان کو چاہیے کہ بھارت کیخلاف دہشتگرد حملے روکے جو کہ اُس ملک کی حوصلہ شکنی کے مترادف ہے جو دہشتگردوں کے ہاتھوں ہر روز اپنے جانوں کا نذرانہ پیش کررہا ہے۔

تنویر احمد نے کہا کہ زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ بھارت کی جانب سے ماورائے عدالت قتل پر کوئی بات نہیں ہوتی،  بھارت نے برطانیہ، کینیڈا، امریکا اور پاکستان کی سرزمین پر یہ قابل مذمت کارروائیاں کی ہیں مگر اس کامیڈیا میں ذکر تک نہیں ہوتا۔اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ یہ پالیسی کا نہیں تاثر کا معاملہ بنا ہواہے۔

اس پس منظر کو بنیاد بناتے ہوئے تنویر احمد نے سوال پوچھا کہ پاکستان کا امریکا میں تاثر کس طرح بدلا جاسکتا ہے اور یہ بھی کہ ان دونوں ممالک کے درمیان مثبت فضا اور دیرپا اعتماد کا رشتہ کیسے مضبوط کیا جاسکتا ہے؟

ڈرائنگ روم کے ایک جانب ہوئی اس علیحدہ ملاقات کے چند لمحے بعد تنویر احمد نے اس نمائندے کو بتایا کہ نائب صدر نے پوری توجہ سے بات سنی اور کہا کہ وہ اس بارے میں مزید جاننا چاہتی ہیں، ساتھ ہی انہوں نے اپنی چیف آف اسٹاف سے ملوایا اور کہا کہ اس ضمن میں معلومات کا تبادلہ ہونا چاہیے۔

بقول تنویر احمد، امریکا کی نائب صدر اس بات پر بے حد خوش تھیں کہ ان تمام نکات کو ان کے سامنے اٹھایا گیا،انہوں نے ان نکات پرتشویش ظاہر کرتے ہوئے انہیں جائز قرار دیا اور ستائش کی کہ یہ چیزیں سامنے لائی گئی ہیں۔

فنڈریزنگ کی یہ تقریب ایک گھنٹے پر محیط تھی کیونکہ مختصر دورے میں کاملا ہیرس کو کیلی فورنیا میں چھ تقاریب میں شرکت کرنا تھی۔

تقریب کے دوران ایک ہیلی کاپٹرفضا میں پرواز کرتا رہا اور سکیورٹی اہلکاروں کی گاڑیاں علاقے کو حصار میں لیے رہیں  تاہم علاقے کے افراد کی گاڑیاں بلا روک ٹوک معمول کے مطابق گزرتی رہیں۔

انتہائی پابندی وقت کے ساتھ مہمان شام5 بجے مدعو تھے تاہم لاس اینجی لیس کے بدترین ٹریفک کے سبب میں پانچ بج کر چالیس منٹ پر بریڈبری مینشن پہنچا۔

محلے کے شاید ہی کسی شخص کو اندازہ ہو کہ ساتھ والے گھر میں نائب صدر موجود ہیں۔ گھر کے باہر رک کر حیرانی سے سکیورٹی پر نظرڈالتی ایک خاتون سے میں نے پوچھا کہ آیا اسے پتہ ہے یہاں کیا ہورہا ہے، جھٹ بولیں لگتا ہے کہ ہالی ووڈ کی کسی فلم کی شوٹنگ ہورہی ہے۔

میں نے بتایا کہ اندر کاملا ہیرس کو خطاب کرنا ہے تو حیرانی سے ارے نہیں، کہہ کر انکا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔

تقریب ختم ہونے کے بعد میں واپسی کیلئے ائیرپورٹ نکلا تو افریقی امریکی ٹیکسی ڈرائیور سے پوچھا کہ اسکے نزدیک کتنے امکانات ہیں کہ جو بائیڈن دوبارہ وائٹ ہاؤس جیت سکیں گے؟

پڑھائی اورکاروبار کے ساتھ ٹیکسی چلانے والے اس شخص نے کہا کہ اگر میں اپنی جیب کا خیال کروں تو ٹرمپ کو ووٹ دوں گا مگر اپنے گھروالوں اوران کے مستقبل کا سوچوں تو بائیڈن کو ووٹ دوں گا، اسلئے ابھی تک ذہن ففٹی ففٹی پررکا ہوا ہے۔

نسبتاًمتوسط امیگرینٹ شخص کے اس جواب میں سب کچھ موجود ہے۔ یعنی جب بات الیکشن کی ہو تو سب سے پہلے لوگوں کو فکرگھر کا چولہا جلانے کی ہوتی ہے۔

یعنی کاملا ہیرس نے جب یہ کہا کہ ہم الیکشن جیت جائیں گے تو ممکن ہے انہوں نے ٹھیک کہا ہو مگر ڈیموکریٹس جس امیگرینٹ کمیونٹی پر انحصار کرتے ہیں اگر وہ بھی بائیڈن کے بارے میں بعض شبہات کا شکار ہوتو سمجھا جاسکتا ہے کہ بائیڈن اورہیرس کیلئے وائٹ ہاؤس تک دوبارہ پہنچانے کی راہ بہت کٹھن ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔