01 جولائی ، 2024
گزشتہ ماہ، سابق وزیراعظم کی اہلیہ بشریٰ عمران خان کی غیر قانونی سرویلنس سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کو معلوم ہوا کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے ٹیلی کام کمپنیوں کو شہریوں کے ڈیٹا کی بڑے پیمانے پر نگرانی کے قابل بنانے والا نظام خریدنے، امپورٹ کرنے اور نصب کرنے کا حکم دیا تھا۔
عدالتی دستاویزات کے مطابق لا فل انٹرسپٹ مینجمنٹ سسٹم (LIMS) کے نام سے جانا جانے والا یہ نظام نجی پیغامات، ویڈیو/آڈیو مواد، کال ریکارڈز، اور ویب براؤزنگ ہسٹری تک رسائی کی اجازت دیتا ہے۔
26 جون کے حکم نامے میں، جسے اتوار کے روز جاری کیا گیا، اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نےلکھا کہ LIMS کو ’نامزد ایجنسیاں‘ نگرانی کے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی ہدایت کے تحت ٹیلی کام کمپنیوں کو اپنے 2 فیصد صارفین پر سر ویلنس کی سہولت فراہم کرنا ہوگی، جس سے ممکنہ طور پر بیک وقت 40 لاکھ سے زائد شہری متاثر ہوسکتے ہیں۔
جسٹس بابر ستار نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ بڑے پیمانے پر نگرانی میں قانونی بنیادوں کا فقدان تھا اور اسے عدالتی یا انتظامی نگرانی کے بغیر چلایا جا رہا تھا، جبکہ LIMS نے ایجنسیوں کو ایس ایم ایس، کال ڈیٹا اور انکرپٹڈ ڈیٹا تک رسائی کی اجازت دی، لیکن اس نے انکرپٹڈ ڈیٹا کے لیے آٹو میٹڈ ڈیکرپشن فراہم نہیں کیا۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے اپنا مؤقف دینے کے لیے Geo.tv کی طرف سے بھیجی جانے والی درخواستوں کا کوئی جواب نہیں دیا۔
LIMS کیسے کام کرتا ہے؟
اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق، ایک ’نامزد‘ قانون نافذ کرنے والی ایجنسی صارف کے ڈیٹا کے لیے ٹریک اور ٹریس کی درخواست شروع کرتی ہے۔
اس کے بعد درخواست خودکار طریقے سے LIMS کے ذریعے جاتی ہے، جس کے بعد ٹیلی کام نیٹ ورک پر دستیاب شہری کے ایس ایم ایس اور کال ڈیٹا جیسی نجی معلومات ایجنسی کو واپس بھیج دی جاتی ہیں۔
عدالتی دستاویزات نے انکشاف کیا ہے کہ ’اس طرح کی نگرانی کے ذریعے صارفین کی طرف سے کی جانے والی آڈیو کالز کو بار بار سنا جا سکتا ہے اور ان کے ایس ایم ایس پڑھے جاسکتے ہیں۔ صارفین کی ڈیوائسسز کے ذریعے تیار کیے گئے آڈیو اور ویڈیو مواد اور صارفین کے ذریعے براؤز کیے گئے ویب پیجز کی تفصیلات کا نہ صرف جائزہ لیا جاسکتا ہے بلکہ اسے محفوظ بھی کیا جا سکتا ہے‘۔
اپنے حکم میں عدالت نے یہ فیصلہ دیا کہ چونکہ LIMS کو غیر قانونی طور پر نصب کیا گیا ہے، اس لیے وہ اوہ ایجنسیاں جو شہریوں کی نگرانی کے لیے اس نظام کو استعمال کر رہی ہیں، وہ خود کو مجرمانہ سرگرمی کا ذمہ دار بنا چکی ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے آرڈر میں یہ بھی لکھا ہے کہ ’ایسا وسیع پیمانے پر نگرانی کا نظام جارج آرویل کے ناول ’1984‘ سے متاثر نظر آتا ہے‘۔
ایک صحافی اور ڈیجیٹل حقوق کی کارکن رمشا جہانگیر نے Geo.tv کو بتایا کہ اس نگرانی کے نظام کے بارے میں کچھ بھی’قانونی‘ نہیں ہے۔
انہوں نے ٹیلی فونک گفتگو میں کہا کہ یہ نہ صرف صارف کی رازداری کی خلاف ورزی ہے، بلکہ اس ناگوار نظام کی تعیناتی اور استعمال انتہائی تشویشناک ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہاں تک کہ یہ سسٹم ایجنسیوں کو انکرپٹڈ ڈیٹا، جیسا کہ واٹس ایپ میسجز حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے اور ٹیکنالوجی کمپنیوں سے مواد کو ڈیکرپٹ کرنے کی درخواست کرتا ہے۔
اس کے علاوہ ، Geo.tv کو پی ٹی اے کی ویب سائٹ پر 2016 کی ایک دستاویز ملی جس میں پاکستان میں کام کرنے کی خواہش مند ٹیلی کام کمپنیوں کو سیکیورٹی ایجنسیوں کے لیے ’lawful interception of communication‘ کی سہولت فراہم کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ تاہم، دستاویز یہ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ کون سی ایجنسی نگرانی کرے گی اور اس ضرورت کی حمایت کرنے والے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ کی متعلقہ دفعات کا حوالہ بھی موجود نہیں۔
فی الحال، اسلام آباد ہائی کور ٹ نے عارضی طور پر ٹیلی کام کمپنیوں کو LIMS کو اپنے نیٹ ورکس تک رسائی دینے یا صارفین کا ڈیٹا حاصل کرنے سے روک دیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو مزید ہدایت کی کہ وہ ایک سربمہر رپورٹ میں تفصیلات درج کرے کہ کس طرح لافل انٹرسیپشن مینجمنٹ سسٹم کو حاصل اور انسٹال کیا گیا، اس کا انتظام کیسے کیا جاتا ہے اور وہ کون سے ادارے اور افراد ہیں جن کے پاس اس تک رسائی ہے اور وہ اسے حاصل کر چکے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس کیس کی سماعت ستمبر تک ملتوی کر دی ہے اور اس دوران پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے ممبران اور اس کے چیئرمین کو آئین کے آرٹیکل 204 کے تحت توہین عدالت آرڈیننس 2003 کے سیکشن 2(b) اور 6 کے تحت ’لا فل انٹرسپٹ مینجمنٹ سسٹم کے حوالے سے غلط بیانی کرنے ‘ پر شوکاز نوٹس جاری کیا ہے۔