03 جولائی ، 2024
وفاقی حکومت نے اسٹیل مل کو اسکریپ کرنے اور زمین دوسرے مقاصد کیلئے استعمال میں لانے کا فیصلہ کرلیا۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار کا عون عباس کی زیر صدارت اجلاس ہوا جس میں پاکستان اسٹیل ملز کی گزشتہ 10 برسوں میں آمدن اور اخراجات، فارغ ہونے والے ملازمین کی تعداد اور ان کی گریڈ وائز تفصیلات پر غور کیا گیا۔
اجلاس میں پاکستان اسٹیل ملز کے موجودہ ملازمین کی تعداد، تنخواہ و دیگر مراعات، موجودہ صورتحال، مستقبل کی منصوبہ بندی اور نجکاری کا بھی جائزہ لیا گیا۔
اجلاس میں پاکستان اسٹیل ملز کے منقولہ و غیر منقولہ اثاثہ جات، ملازمین کے مستقبل سمیت متعدد امور کا تفصیلی غورکیا گیا۔
سیکرٹری صنعت وپیداوار نے بریفنگ میں بتایا کہ مارکیٹ میں پاکستان اسٹیل ملز کا کوئی خریدارنہیں، حکومت نے اسے سکریپ کرنے اور زمین کو دوسرے مقاصد کےلیے استعمال میں لانے کا فیصلہ کرلیا ہے، وفاقی کابینہ نے منظوری بھی دے دی ہے۔
سیکرٹری صنعت و پیدا وار نے بتایاکہ زمین وفاق کی ہے یا سندھ حکومت کی؟ اس کے لیز کاریکارڈ موجود نہیں، اس زمین کو اسٹیٹ لینڈ کے طور پر دیا گیا تھا، ادارے کی زمین کے دوسرے استعمال کیلئے صوبائی حکومت سے اجازت لینا ضروری ہے، پاکستان اسٹیل ملزکی زمین ایکسپورٹ پروموشن زون کے استعمال میں لانے کا بھی فیصلہ کیا گیا، نگران صوبائی حکومت نے نگران وفاقی حکومت کو زمین استعمال کرنے کی اجازت دی تھی تاہم موجودہ حکومت نے نگران حکومت کے فیصلے پر نظر ثانی کی ہے۔
بریفنگ کے مطابق اگر سندھ حکومت نئی اسٹیل ملز بناتی ہے تو 700 ایکڑ پر قائم ہوگی، باقی زمین پاکستان اسیٹل ملز کے نام پر رہے گی لیکن سندھ کابینہ کے فیصلے کا انتظار ہے۔
بریفنگ میں مزید بتایاگیا کہ اسٹیل ملز کے لوہے کو فروخت کرنے کی کوشش کی گئی تھی مگر فروخت نہیں ہوا۔
چیف فنانشل افسرپاکستان اسٹیل ملز عارف شیخ نے کمیٹی کو بریفنگ میں بتایاکہ ادارے کے منقولہ اور غیر منقولہ اثاثہ جات کی مالیت 860.99 ارب روپے ہے، ان میں سے 2.12 ارب کے منقولہ اور 858 ارب کے غیر منقولہ اثاثہ جات ہیں، منقولہ اثاثہ جات میں 1.45 ارب کی مشینری اور گاڑیاں ہیں، ادارے کی 500 گاڑیاں ہیں جن میں بسیں، کاریں اور سکیورٹی وینز شامل ہیں۔
سی ایف او پاکستان اسٹیل ملز کا کہنا تھاکہ پاکستان اسٹیل ملز ملازمین کا سالانہ تنخواہوں کا حجم 3.1 ارب روپے ہے، گزشتہ 10 برسوں میں اسٹیل ملز ملازمین کو تنخواہوں کی میں 32 ارب روپے ادا کیے گئے، گزشتہ دس برسوں میں اسٹیل ملز میں 7 ارب روپے کی گیس استعمال ہو چکی۔
سی ایف او پاکستان اسٹیل ملز نے کہا کہ سیاسی بھرتیاں، ملازمین کو مستقل کرنا پاکستان اسٹیل ملز کو لے ڈوبی، 2010 میں اس وقت کی حکومت نے 4500 ملازمین کو مستقل کرنے کا کہا، 2010 میں ساڑھے 4 ہزار ملازمین کو مستقل کرنے سے لاگت میں 2 ارب کا اضافہ ہوا۔
انہوں نے بریفنگ میں بتایاکہ سال 2000 سے 2008 تک یہ ملز اوسطاً 80 فیصد کپیسٹی کے ساتھ منافع دے رہی تھی، 2009 میں بین الاقوامی مسئلہ آیا جو دنیا کے بڑے بینکوں کی وجہ سے تھا، 30 جون2009 کو یہ ملز 36 فیصد کپیسٹی پرآ گئی اور 26 ارب کا نقصان ہوا، اس کی انکوائری نیب اور سپریم کورٹ دونوں نے کرائی۔
قائمہ کمیٹی نے پاکستان اسٹیل ملز کے حوالے سے ہونے والی تمام انکوائری رپورٹس طلب کر لیں۔