06 جولائی ، 2024
دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات مرتب ہوررہے ہیں، بڑھتا ہوا درجہ حرارت، ہیٹ ویوز، جنگلات میں آگ کا لگنا، قحط سالی اور شدید بارشیں یہ سب ہی ماحولیاتی تبدیلی کی علامات میں شامل ہیں۔
پاکستان میں بھی بڑھتا ہوا درجہ حرارت، ریکارڈ توڑ گرمی اور ہیٹ ویوز کی صورت میں غیر معمولی تبدیلی محسوس کی جارہی ہے۔ جانتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی بالخصوص بڑھتا ہوا درجہ حرارت حاملہ خواتین اور بچے کی صحت کو کس طرح متاثر کررہا ہے اور طبی ماہرین اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟
جیو ڈیجیٹل نے آغا خان یونیورسٹی کے پروفیسر اور گائناکولوجسٹ ندیم زبیری سے گفتگو کی۔
انہوں نے بتایا کہ درجہ حرارت میں مسلسل اتار چڑھاؤ حاملہ خواتین اور بچے کی زندگی پر بہت منفی اثرات مرتب کرتا ہے جس سے بچے کی زندگی کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔
’پریگنینسی کے دوران خواتین کا جسم مختلف تبدیلیوں سے گزر رہا ہوتا ہے، تمام اعضا مختلف انداز میں کام کررہے ہوتے ہیں البتہ جب ہیٹ ویوز زیادہ ہوتی ہیں تو ان کے سانس لینے کا خاکہ بھی تبدیل ہوجاتا ہے، ماں بننے کے عمل سے گزرتے ہوئے خواتین کے جسم میں آکسیجن کی ڈیمانڈ سمیت حرکت قلب بھی مختلف ہوجاتی ہے‘۔
طبی ماہرین کے مطابق جسم کا مختلف تبدیلیوں سے گزرنا ہیٹ ویوز میں حاملہ خواتین کے سب سے زیادہ متاثر ہونے کی وجہ بنتا ہے۔
’آکسیجن کی کمی ہوتو بچے کی نشوونما پر فرق پڑھتا ہے اور قبل از وقت پیدائش کے چانسز بھی بڑھ جاتے ہیں جبکہ مسکیریج کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے‘
2020 میں دی لینسیٹ جرنل میں شامل ڈبلیو ایچ او، یونیسیف اور لندن کے ایک ادارے کے محققین کے مطابق پاکستان کا شماران آٹھ ممالک میں ہوتا ہے جہاں سب سے زیادہ قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کی اموات دیکھی گئیں ہیں۔
ان ممالک میں امریکا، چین، ایتھوپیا، بھارت، بنگلادیش اور دیگر ممالک شامل ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق سال 2020 میں پاکستان میں قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کی اموات کی شرح 14 عشاریہ 4 فیصد بتائی گئی ہے۔
بنیادی طور پر حاملہ خواتین میں بھی وہی علامات ظاہر ہوتی ہیں جو ہیٹ اسٹروک سے متاثرہ شخص کو ظاہر ہوتی ہیں۔
پروفیسر ندیم زبیری کے مطابق حاملہ خواتین پر جو علامات ظاہر ہوتی ہیں وہ درج ذیل ہیں ۔۔
پسینہ زیادہ آنا، گرمی محسوس ہونا، غنودگی اور کمزوری محسوس کرنا، پیاس کا زیادہ لگنا، پیشاب کا کم آنا اوررنگ تبدیل ہونا جیسی علامات شامل ہیں۔
ندیم زبیری کہتے ہیں کہ درجہ حرارت کا زیادہ ہونا اتنا مسئلہ نہیں ہے البتہ اس میں اتار چڑھاؤ زیادہ نقصان دہ ہے، حاملہ خواتین کو ہیٹ ویوز یا شدید گرمی کے دوران ان احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا چاہیے۔
پروفیسر ندیم زبیری نے بتایا کہ سب سے اہم یہ ہے کہ شدید گرمی کے اوقات میں حاملہ خواتین گھر سے باہر نہ نکلیں، بہت سی خواتین گھر سے باہر نکل کر کام کرتی ہیں جبکہ دیہی علاقوں میں یہ انتہائی دشوار ہے کیونکہ وہاں بہت سی خواتین کھلے آسمان کے نیچے کام کرتی ہیں۔
جسم کو ٹھنڈا رکھنا بھی بہت ضروری ہے۔ یہ بھی دیہی علاقوں سمیت شہری علاقوں میں بھی مشکل ہوتا جارہا ہے۔
بجلی کا نہ ہونا، پانی کی قلت یہ وہ بنیادی ضروریات ہیں جو انسانی صحت کو نقصان پہنچا رہی ہیں البتہ سہولیات کا فقدان جیسا کہ ائیر کنڈیشنر کا میسر نہ ہونا، ٹھنڈے پانی کی سہولت نہ ہونا بھی بہرالحال ایک مسئلہ ہے۔
حاملہ خواتین کیلئے کھلے کپڑے پہننا اور زیادہ پانی پینا انتہائی ضروری ہے۔
اس سے قبل وزارت موسمیاتی تبدیلی کے میڈیا ترجمان محمد سلیم شیخ نے چند دن پہلے خبردار کیا تھا کہ ہیٹ ویوز حاملہ خواتین کو سب سے زیادہ متاثر کرسکتی ہیں جس سے بچاؤ کیلئے گرم اوقات کے دوران غیر ضروری بیرونی سرگرمیوں سے گریز کیا جائے۔
البتہ صرف گرم موسم ہی حاملہ خواتین کی صحت کو متاثر کرنے میں واحد ذمہ دار نہیں ہے بلکہ فصائی و آبی آلودگی بھی ماں اور بچے کی صحت و زندگی کو متاثر کرنے میں کردار ادا کررہی ہے جو کہ انتہائی تشویشناک ہے۔