10 جولائی ، 2024
نیٹو کے تین روزہ سربراہ اجلاس کا واشنگٹن میں آغاز ہوگیا ہے، فوجی اتحاد کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر منعقد اس اجلاس میں شرکا کی توجہ یوکرین جنگ پرمرکوزہے تاہم ایشیا اور بحرالکاہل میں چین کے بڑھتے اثرورسوخ سمیت دیگر امور پر بھی بات چیت کا امکان ہے۔
امریکا کے صدرجو بائیڈن کی میزبانی میں منعقد اس اجلاس میں برطانیہ کے نئے وزیراعظم کئیراسٹارمر بھی شریک ہیں اور فرانس کےصدر میکرون بھی۔ نیٹو کے سکبدوش ہونےوالے سیکرٹری جنرل اسٹولٹن برگ بھی یہاں آئے ہیں اور فوجی اتحاد کے نئے رکن سوئیڈن کے سربراہ بھی۔ ساتھ ہی روس کی مخالفت کے باوجود نیٹو کا رکن بننے کے خواہشمند یوکرین کے صدر زیلنسکی بھی اس اجلاس میں شریک ہیں کیونکہ اجلاس میں نیٹو کی جانب سے یوکرین کی اگلے برس تک 43 ارب ڈالر اضافی امداد کااعلان بھی متوقع ہے۔
اس نمائندے نے امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان مارگریٹ مک کلاوڈ سے پوچھا کہ یہ نیٹو اجلاس ایسے وقت ہورہا ہے جب یوکرین جنگ میں روس کی پیش قدمی جاری ہے اور اس جنگ کی وجہ سے دنیا کے مختلف حصوں میں منہگائی کا ایک طوفان آیا ہوا ہے جو حکومتیں ہلا رہا ہے۔ ایسے میں یہ یوکرین جنگ جیت کون رہا ہے اور ہار کون رہا ہے؟
امریکی محکمہ خارجہ کی اردو ترجمان نے جنگ میں ہار یا جیت سے متعلق جواب دینے سے گریز کیا تاہم مارگریٹ مک کلاوڈ نے اتنا ضرور کہا کہ 'یہ بہت اچھی مثال ہے اس لیے کہ یہ جنگ جو روس نے یوکرین میں شروع کی ہے وہ پوری دنیا پراثر ڈال رہی ہے ۔اس کے اثرات دنیا کی اسٹاک مارکیٹوں پر بھی ہورہے ہیں۔ کیونکہ جب یوکرینی اناج کی سپلائی چین پر روس حملہ کرتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس کا بُرا اثر بہت سی جگہوں پر پڑتا ہے'۔
نیٹو 1949 میں سردجنگ کےدور میں سابق سوویت یونین کے خلاف قائم کیا گیاتھا۔ تاہم 12 ممالک پرمشتمل اتحاد اب 32 ممالک تک پھیل چکا ہے اور اس کے دروازے دیگر ممالک کے لیے بھی کھلے ہیں۔
مارگریٹ مک کلاوڈ نے کہا کہ 'امریکا اس اتحاد کی 75 ویں سالگرہ اپنے اتحادیوں کےساتھ منارہاہے۔ نیٹو کی بنیاد اجتماعی دفاع ہے یعنی اگر کوئی حملہ آور ایک ملک سے لڑائی لڑے تو یہ سب اتحادیوں کے ساتھ لڑائی تصور کی جائے گی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد اتحادیوں نے جو امن پایا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اجتماعی دفاع ہی بہترین طریقہ ہے'۔
اس سوال پر کہ روس نے یوکرین جنگ ختم کرنے کے لیے کئی امن تجاویز پیش کی ہیں جن میں نیٹو میں نئے رکن ممالک شامل کرنے کی مخالفت کی شرط بھی شامل ہے تاہم ایسے آثار نہیں کہ صدر ولادیمر پوٹن کی یہ امن تجاویز مان لی جائیں گی۔ ایسے میں یوکرین جنگ کتنے سال جاری رہنے کا خدشہ ہے؟
مارگریٹ مک کلاوڈ نے کہا کہ 'کاش میں مستقبل کی پیشگوئی کرسکتی، اگر آپ یوکرینی لوگوں سے پوچھیں کہ وہ سوویت یونین کے تجربے کی بنیاد پر روس کی تجاویز کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں تو آپ کو بہت سے اعتراضات سننے کو ملیں گے۔یہ جنگ بہت جلد ختم ہوسکتی ہے اگر روس اپنی فوج یوکرین سے نکال لے'۔
اس سوال پر کہ پاکستان بھی نیٹو پارٹنر ممالک میں شامل ہے،اس وقت حکومت پاکستان عزم استحکام آپریشن کیلیے اقدامات کا سوچ رہی ہے تو کیا نیٹو اس ضمن میں پاکستان کی مدد کا ارادہ رکھتا ہے؟
مارگریٹ مک کلاوڈ نے کہا کہ 'پاکستان نیٹو کا گلوبل پارٹنر ہے، اس حیثیت میں بہت سے چیزوں میں نیٹو تعاون کررہا ہے جس میں انسداد انتہاپسندی اور اینٹی نارکوٹکس تعاون شامل ہے۔ اس سربراہ اجلاس میں نیٹو کے ہر فعال پارٹنر کو دعوت دی گئی ہے ، پاکستانی شراکت داری سے متعلق بہتر ہوگا کہ پاکستانی حکام سے پوچھا جائے تاہم ورکنگ لیول پر ہم انسداد انہتاپسندی کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں'۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔