فیکٹ چیک: خیبرپختونخوا کے کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ سے متعلق وزیر اعظم شہباز شریف کا بے بنیاد دعویٰ

سی ٹی ڈی کا محکمہ پہلی بار صوبے میں نومبر 2013 میں قائم کیا گیا تھا لیکن 2014 میں یہ مکمل طور پر فعال ہو گیا۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے دعویٰ کیا ہے کہ صوبہ خیبرپختونخوا گزشتہ 14 برسوں میں کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) قائم کرنے میں ناکام رہا۔

دعویٰ غلط ہے۔

دعویٰ

28 جون کو وزیر اعظم نے قومی اسمبلی سے خطاب میں کہا کہ صوبہ خیبر پختونخوا کو 2010 سے دہشت گردی کے خلاف ”اپنی کوششوں کو بڑھانے“ کے لیے وفاقی حکومت سے 590 ارب روپے ملے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ صوبے کو 590 ارب روپے دیے گئے لیکن آج تک سی ٹی ڈی قائم نہیں ہوا جس کے لیے فنڈز مختص کیے گئے۔

اس تقریر کو پاکستان کے تمام نیوز چینلز نے براہ راست ٹیلی کاسٹ کیا اور اسے یہاں سرکاری نشریاتی ادارے کے یوٹیوب چینل پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

وزیراعظم کا دعویٰ سوشل میڈیا پر مزید گردش کر رہا ہے۔ کچھ پوسٹس یہاں، یہاں اور یہاں مل سکتی ہیں۔

حقیقت

وزیر اعظم کے دعویٰ کے برعکس، صوبہ خیبر پختونخوا میں کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ (CTD) موجود ہے، جس کی تصدیق صوبے کے ایک سرکاری اہلکار اور متعدد صحافیوں نے کی ہے۔

خیبرپختونخوا میں وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات و تعلقات عامہ ڈاکٹر محمد علی سیف کے آفس نے جیو فیکٹ چیک کو ایک تحریری جواب میں بتایا کہ سی ٹی ڈی پہلی بار صوبے میں نومبر 2013 میں قائم ہوا تھا لیکن 2014 میں مکمل طور پر فعال ہو گیا۔

جواب میں مزید کہا گیا کہ اس وقت سی ٹی ڈی کی سربراہی ایڈیشنل انسپکٹر جنرل آف پولیس کے عہدے کا افسر کر رہا ہے اور اس کا ہیڈ کوارٹر پولیس لائنز پشاور میں ہے۔

حالیہ برسوں میں صوبے میں سی ٹی ڈی تھانوں کی تعداد 7 سے بڑھا کر 16 کر دی گئی ہے، جو اب پشاور، خیبر، کوہستان، کوہاٹ، مردان، کرم، مہمند، بنوں، سوات، شمالی وزیرستان، دیر، جنوبی وزیرستان، باجوڑ، ٹانک، ایبٹ آباد اور ڈیرہ اسماعیل خان کے اضلاع میں واقع ہیں۔

مشیر کے دفتر نے مزید کہا کہ صوبے بھر میں سی ٹی ڈی کے محکمے میں 3 ہزار 395 افسران کام کر رہے ہیں، جبکہ 924 ملازمین کا تکنیکی عملہ اس کے علاوہ ہے۔

جواب میں کہا گیا ”دہشت گردی کی مالی معاونت اور بھتہ خوری کے معاملات کی تحقیقات کے لیے تمام اضلاع میں سرشار تفتیشی افسران تعینات کیے گئے ہیں۔“

پشاور میں سی ٹی ڈی کے دفتر کی موجودگی کی تصدیق پشاور میں جیو نیوز کے بیورو چیف شکیل فرمان علی نے بھی کی، انہوں نے مزید کہا کہ پشاور کے دفتر میں اس وقت کم از کم 200 ملازمین کام کر رہے ہیں۔

اس کے علاوہ، سوات میں جیو نیوز سے وابستہ صحافی ڈاکٹر محبوب علی اور بنوں میں جیو نیوز کے نمائندے منظور الدین، دونوں نے اپنے اپنے اضلاع میں سی ٹی ڈی کے دفاتر کی موجودگی کی تصدیق کی۔

ہمیں@GeoFactCheck پر فالو کریں۔

اگرآپ کو کسی بھی قسم کی غلطی کا پتہ چلے تو [email protected] پر ہم سے رابطہ کریں۔