فیکٹ چیک: وزیر قانون کا خفیہ ایجنسی کے فون ٹیپنگ کے اختیارات کا برطانوی قانون سے موازنہ گمراہ کن ہے

وکلاء نے واضح کیا کہ برطانیہ میں سیکیورٹی ایجنسیوں کے پاس شہریوں کی سرویلنس کے مکمل اختیارات نہیں ہیں۔

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے حکومت کے خفیہ ایجنسی کو ”قومی سلامتی کے مفاد میں“ فون کالز ٹیپ کرنے کی اجازت دینے کے حالیہ فیصلےکا دفاع کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ برطانیہ کے قانون میں بھی ایسی ہی دفعات ہیں جو وہاں کی سکیورٹی ایجنسیوں کو فون کالز ٹیپ کرنے کا اختیار دیتی ہیں۔

دعویٰ گمراہ کن ہے اور اہم سیاق و سباق کے بغیر ہے۔

دعویٰ

9 جولائی کو قومی اسمبلی میں حکومت کی جانب سے انٹر سروسز انٹیلی جنس ( آئی ایس آئی) کو شہریوں کی کالز اور میسجز کو انٹرسپٹ کرنے یا فون کالز کو ٹریس کرنے کا اختیار دینے کےحوالے سے قومی اسمبلی میں ہونے والی بحث کے دوران وزیر قانون نے کہا کہ حکومت برطانیہ نے بھی اپنی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو اسی طرح کے اختیارات دیئے ہیں۔

ان کے کہے گئے الفاظ یہ تھے: ”مدر آف ڈیموکریسی ہے جہاں سے ہم Common Law کو drive کرتے ہیں، یو کے laws کے تحت بھی جو Law ہے Telecommunications (Lawful Business Practice) (Interception of communications) Regulations 2000 میں بھی یہ چیزیں موجود ہیں۔“

اسی طرح کی دلیل وزیر دفاع خواجہ آصف نے 10 جولائی کو جیو نیوز کے ایک پروگرام میں دی تھی۔

خواجہ آصف نے کہا کہ امریکہ اور برطانیہ جیسے ”بڑے ترقی یافتہ ممالک“ میں ”قومی سلامتی کے umberalla کے under یہ کام کیا جاتا ہے“۔ـ

حقیقت

جیو فیکٹ چیک سے بات کرنے والے وکلا نے یہ واضح کیا کہ برطانیہ میں سکیورٹی ایجنسیوں کے پاس شہریوں کی نگرانی کے مکمل اختیارات نہیں ہیں اور فون ٹیپنگ جیسی کسی بھی درخواست کے لیے کڑی سویلین اور عدالتی نگرانی درکار ہوتی ہے۔

لندن میں مقیم ایک وکیل محمد شفیق چوہدری نے ٹیلی فون پر جیو فیکٹ چیک کو بتایا کہTelecommunications (Lawful Business Practice) (Interception of communications) Regulations 2000 جس کا وزیر قانون نے حوالہ دیا یہ صرف کاروباری اداروں کو صارفین کی اجازت کے بغیر ان کے اپنے نیٹ ورکس پر کمیونیکیشن کی نگرانی کرنے کی اجازت دینے سے متعلق ہے۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ یہ قانون برطانیہ میں سیکورٹی ایجنسیوں کے بارے میں نہیں تھا۔

محمد شفیق چوہدری نے مزید وضاحت کی کہ ریگولیشن آف انویسٹی گیٹری پاورز ایکٹ 2000 (RIPA) دراصل حکومتی اداروں کے ذریعے برطانیہ میں عام افراد کی سرویلنس کرنے سے متعلق ہے، لیکن Ripa کے تحت بھی سرویلنس اس طریقے سے کی جانی چاہیے جس سے عوام اور ان کے انسانی حقوق کا تحفظ ہو۔

انہوں نے کہا کہ ”Ripa کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ جب [سرکاری] تنظیمیں نجی افراد کی تفتیش کے لیے خفیہ تکنیکوں کا استعمال کرنا چاہتی ہیں، تو انہیں یہ ظاہر کرنا چاہیے کہ ایسی تکنیکوں کا استعمال جائز ہے۔“

 انہوں نے مزید کہا کہ افراد کے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے، Ripa میں ایسی دفعات شامل ہیں جو ان تنظیموں اور لوگوں پر سخت پابندیاں عائد کرتی ہیں جنہیں خفیہ نگرانی کی تکنیک استعمال کرنے کی اجازت ہے۔

اتنا ہی نہیں، وکیل نے وضاحت کی کہ کسی بھی قسم کی نگرانی کرنے سے پہلے عدالتوں سے وارنٹ بھی درکار ہوتے ہیں۔

لاہور میں مقیم وکیل اسد جمال نے بھی ایسا ہی خیال ظاہر کیا۔

اسدجمال نے وضاحت کی کہ برطانیہ میں سیکرٹری آف سٹیٹ کو مطمئن ہونا چاہیے کہ ایک ضرورت ہے اور جو کارروائی کی جائے گی (یعنی انٹر سیپشن، دورانیہ، اور دائرہ کار) خفیہ ایجنسیوں جیسے MI5 کے پیش کردہ حقائق کے متناسب ہے۔

انہوں نے کہا، ”اس کے بعد ہی سیکرٹری سرویلنس کے لیے وارنٹ جاری کرے گا، جس کی منظوری بھی Investigatory Powers Commissioner’s Office (Ipco) اور بعض معاملات میں جوڈیشل کمشنر کے طور پر کام کرنے والے سینئر عدلیہ کے ایک آزاد جج کے ذریعے حاصل کی جانی چاہیے۔ـ“

اسد جمال نے مزید کہا کہ Ipco آزادانہ طور پر اجازت دیتا ہے اور پھر نگرانی کرتا ہے کہ آیا قانون نافذ کرنے والے اداروں یا انٹیلی جنس ایجنسیوں کو کمیونیکیشن میں انٹرسیپشن کے ذریعے تحقیقات کے لیے دیے گئے اختیارات قانون کے مطابق اور عوامی مفاد میں استعمال کیے جاتے ہیں۔

برطانیہ میں Ipco ایک ایسا ادارہ ہے جو انسپکٹرز، مجاز افسران، وکلاء اور پالیسی حکام پر مشتمل ہے۔

اسدجمال نے یہ بھی کہا کہ برطانیہ میں 2016 میں نئے متعارف ہونے والے قانون Investigatory Powers Act 2016 کے نافذ ہونے کے بعد سے پہلے سے موجود قانون Regulation of Investigatory Powers Act 2000 میں بہت سی تبدیلیاں لائی گئی ہیں۔

اسد جمال کا مزید کا کہنا تھا ”پاکستانی حکومت کی جانب سے آئی ایس آئی کو Pakistan Telecommunication Re-Organisation Act 1996 کے سیکشن 54 کے تحت فون کالز ٹیپ کرنے کے اختیارات دینے کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے، جبکہ اس قانون میں اس بات کا ذکر نہیں کیا گیا ہے کہ پرائیو یسی اور وقار کے حق کے غلط استعمال یا خلاف ورزی کے لیے کوئی آزاد نگرانی اور جوابدہی ہوگی۔ـ“

ہمیں@GeoFactCheck پر فالو کریں۔

اگرآپ کو کسی بھی قسم کی غلطی کا پتہ چلے تو [email protected] پر ہم سے رابطہ کریں۔