Time 27 جولائی ، 2024
پاکستان

وزیر داخلہ کا نائب امیر جماعت اسلامی سے رابطہ، لیاقت بلوچ نے مطالبات سامنے رکھ دیے

وزیر داخلہ کا نائب امیر جماعت اسلامی سے رابطہ، لیاقت بلوچ نے مطالبات سامنے رکھ دیے
 حکومت پوری سنجیدگی سے جماعت اسلامی کے ساتھ مذاکرات چاہتی ہے: محسن نقوی کی لیاقت بلوچ کو یقین دہانی۔ فوٹو فائل

لاہور: وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے نائب امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ سے رابطہ کر کے دھرنے کے مطالبات سے متعلق گفتگو کی۔

ترجمان جماعت اسلامی کے مطابق وزیر داخلہ محسن نقوی نے نائب امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ سے ٹیلیفونک رابطہ کیا جس میں انہوں نے دھرنے کے مطالبات سے متعلق بات کی اور کہا کہ حکومت پوری سنجیدگی سے جماعت اسلامی کے ساتھ مذاکرات چاہتی ہے۔

جماعت اسلامی کے ترجمان کے مطابق لیاقت بلوچ نے وزیر داخلہ کو بتایا کہ 500 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو بلوں میں 50 فیصد رعایت دی جائے اور بجلی کے بلوں میں سلیب ریٹ ختم کیے جائیں۔

لیاقت بلوچ کا کہنا تھا آئی پی پیز کے ساتھ کیپیسٹی پیمنٹ اور ڈالر میں ادائیگی کا معاہدہ ختم کیا جائے، غریب تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں کا ظالمانہ بوجھ واپس لیا جائے، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ واپس لیا جائے اور پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی ختم کی جائے۔

خیال رہے کہ جماعت اسلامی نے دوسرے روز لیاقت باغ راولپنڈی میں دھرنا دے رکھا ہے جہاں پارٹی رہنماؤں کی تقریر کے لیے اسٹیج بھی بنا دیا گیا ہے اور دھرنے کے شرکاء کے لیے کھانے پینے کا بندوبست بھی کر دیا گیا ہے۔

گزشتہ روز امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان کا دھرنے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا ہم پاکستان کے 25 کروڑ عوام کی جنگ لڑ رہے ہیں، تنخواہ دار کو برباد کر دیا گیا ہے، غریب کو پہلے ہی تباہ کردیا گیا تھا، اب سرمایہ کار بھی اپنی ملیں بند کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں، عوام پریشان ہیں لیکن حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی، بجلی کے بلوں کی وجہ سے بھائی بھائی کو قتل کررہا ہے، یہ فارم 47 کی پیداوار حکومت ہے ان کی کوئی سنتا بھی نہیں۔

حافظ نعیم الرحمان کا کہنا تھا ایک طبقے کیلئے بجلی اور گیس فری ہے، اب بچے بچے کو بات سمجھ آگئی کہ آئی پی پیز کیا بلا ہیں، آئی پی پیز میں سے 80 فیصد کمپنیاں پاکستان کے لوگوں کی ہیں، آئی پی پیز میں حکومت میں شامل لوگوں کی کمپنیاں ہیں، ایک کمپنی ایسی بھی ہے جس کا ایک یونٹ 750 روپے کا پڑتا ہے، یہ پیسے ہم کیوں ادا کریں، اب ہم یہ پیسے ادا نہیں کریں گے، اب ان آئی پی پیز کو لگام بھی دینا پڑے گی ، دوبارہ بات بھی کرنا پڑے گی۔

مزید خبریں :