بلاگ

آئی پی پیز سے نئے معاہدوں کی ضرورت

قارئین! آئی ایم ایف پروگرام کے تحت بجلی کی قیمتوں میں طوفانی اضافے کے بعد صنعتوں سے لے کر گھریلو صارفین تک بجلی کا استعمال ایک ڈرائونا خواب بن چکا ہے ۔اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ 90کی دہائی میں بجلی کی قلت پر قابو پانے کی خاطر شارٹ کٹ اختیار کرنے کے شوق میں قوم کے گلے میں بجلی کا پھندا ایسا فٹ کیا گیا ہے، کہ اب ’’نہ پائے رَفَتن ،نہ جانے ماندَن‘‘ والا معاملہ ہو چکا ہے، گھریلو صارفین اپنی کل آمدنی سے بھی زیادہ بل ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے اور انڈسٹری اس قیمت پر بجلی خرید کر مارکیٹ میں مقابلہ کرنے سے قاصر ہے نتیجہ یہ ہے کہ صنعتیں بند ہو رہی ہیں ۔

 المیہ یہ ہے کہ 90کی دہائی کے آغاز سے لمحہ موجود تک ہر حکومت نے اس عفریت کو پالنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ ابتدائی معاہدوں میں ایک مدت مقرر تھی جسکے بعد نرخ کم ہونے تھے،لیکن بعدکی حکومتوں نے جن میں مشرف حکومت سرفہرست رہی مدت مکمل ہونے کے بعد بھی انہیں کھلی چھٹی دیئے رکھی، نواز لیگ کی حکومت نے معاہدوں کی خلا ف ورزی پر ان کے خلاف 35ہزار ارب کی ناجائز وصولیوں کا کیس بنایا تو متعلقہ وزیر کی چھٹی ہو گئی ۔پی ٹی آئی حکومت میں وزیر اعظم نے اسی 35ہزار ارب روپے کا معاملہ اٹھایا، مگر ہر سیاسی جماعت میں موجود آئی پی پیز مافیا نے حکومت کو ایسا چکر دیا کہ نہ صرف 35ہزار ارب کی اضافی ادائیگیوں کا معاملہ صرفِ نظرہوگیا بلکہ معاہدہ میں تبدیلی کرکے ٹیرف میں کمی کی شق ہی غائب کر دی گئی۔

 آئی پی پیز قوم کو 3طرح سے لوٹ رہی ہیں، اول ابتدائی معاہدوں میں شامل کیپسٹی پیمنٹ کی شق کا فائدہ اٹھا کر بند پاورپلانٹس بھی سینکڑوں ارب لوٹ رہے ہیں، دوسرا بار بار بجلی کے نرخ بڑھا کر۔ تیسرا نقصان یہ کہ پاکستان میں لگے ہوئے قریبا تمام پاور پلانٹس 50کی دہائی کے ہیں، جو اپنی طبعی مدت پوری کر چکے ہیں اور اس وقت بے پناہ فیول خرچ کر کے معمولی پیداوار دے رہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ قوم فی یونٹ 24روپےاضافی دینے پر مجبور ہے۔ وزیر توانائی کا موقف غلط ہے کہ ہم معاہدوں کی پابندی پر مجبور ہیں، دنیا کا کوئی قانون یک طرفہ لوٹ مار کی اجازت نہیں دیتا۔ معاہدوں کی پابندی کر نی چاہئے، لیکن ڈکیتی اور لوٹ مار کی نہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ قوم کو اس لوٹ مار سے نجات دلائے۔آئی ایم ایف تک یہ کہہ چکا ہے کہ کیپسٹی پیمنٹ ختم ہونی چاہئے، ہم سمجھتے ہیں کہ کیپسٹی پیمنٹ ہی نہیں تمام پرانے تھر مل یونٹ بند کئے جائیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ آئی پی پیز سے معاہدوں پر نظر ثانی تک ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔

وفاقی وزیر برائے توانائی اویس لغاری نے آئی پی پیز کے معاہدوں پر نظر ثانی کرنے کا اشارہ دے دیا ہے۔ اویس لغاری کا کہنا تھا کہ موجودہ آئی پی پیز کے کنٹریکٹ کا جائزہ لے رہے ہیں، جو ہمارے فائدے میں نہیں ہوں گے انہیں خیر باد کہہ دیں گے تاکہ عوام پر سے بوجھ ختم ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ بجلی کے معاہدوں پر یک طرفہ کارروائی نہیں کر سکتے، حکومت پاکستان نے آئی پی پیز کو گارنٹیز دے رکھی ہیں، ہم ایسی قوم ہیں جوعالمی معاہدوں کی پاسداری کرتی ہے۔ 

دوسری جانب سابق نگران وزیر گوہر اعجاز نے کہا ہے کہ وفاقی وزیر نئی نجکاری سے پہلے آئی پی پیز معاہدوں کے حوالے سے قوم کو مطمئن کریں، پچھلے 2سال میں 23ہزار 400میگا واٹ پر مبنی آئی پی پیز کی پیداوار میں سے 50فیصد سے بھی کم استعمال ہوا۔ان کا کہنا تھا کہ 5ہزار میگا واٹ کے در آمدی کوئلے پر مبنی آئی پی پیز پاور پلانٹس نے گزشتہ 2سال میں 25فیصد سے بھی کم صلاحیت کااستعمال کیا، 25فیصد کم کیپسٹی پر چلنے کے باوجود فل کیپسٹی چارجز یعنی 692ارب روپے لے رہے ہیں، ونڈ انرجی آپریشنز 50فیصد سے کم ہیں لیکن فی یونٹ اضافی چارجز کے ساتھ 175ارب روپے جب کہ آر ایل این کو 25فیصد کم صلاحیت پر چلنے کے باوجود 180ارب روپے دئیے جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ قومی المیہ نہیں تو اور کیا ہے ،ان معاہدوں کی وجہ سے پاکستان کے 24کروڑ لوگوں سے سالانہ 2ہزار ارب وصول کیے گئے ہیں۔پچھلے سال آئی پی پیز سے 1198روپے کی بجلی خریدی گئی اور ادائیگیاں 3127ارب روپے کی کی گئیں۔

دوسری جانب ایشیائی ترقیاتی بینک کے ایشین ڈویلپمنٹ آئوٹ لک میں پاکستان کی معاشی صورتحال کا جو منظر نامہ پیش کیا گیا ہے وہ حوصلہ افزانہیں ۔ایشائی ترقیاتی بینک کے مطابق رواں مالی سال کے دوران ملک میں مہنگائی 15فیصد سے نیچے نہیں آئے گی جبکہ معاشی شرح نمو بھی 2.8فیصد تک محدود رہے گی۔ یہی نہیں بلکہ اگلے 10سال تک ملکی معیشت خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں آدھی رفتار سے آگے بڑھ سکے گی اور اس دوران قرضوں پر انحصار کرنا پڑے گا۔

 ایشیائی ترقیاتی بینک کی یہ رپورٹ حکومت کیلئے چشم کشا ہونی چاہئے۔ محض تخمینوں سے معاشی اہداف حاصل نہیں کئے جا سکتے۔ حکومت کی موجودہ پالیسیوں میں نہ تو صنعتی شعبے کا فروغ شامل ہے اور نہ ہی زرعی شعبے کا۔ بجلی کے موجودہ نرخوں کی وجہ سے صنعتی پہیہ رواں رکھنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے جبکہ توانائی کی ناقابل برداشت قیمتوں کی وجہ سے چھوٹی، بڑی تمام صنعتیں بندش کا شکار ہیں۔ ملک میں صنعتی پہیہ بلا تعطل رواں رہے گا تو ہی عوام کو روزگار کے نئے مواقع میسر آئیں گے اور قوت خرید میں اضافے کی وجہ سے مہنگائی کے اثرات کم ہو سکیں گے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔