Time 05 اگست ، 2024
پاکستان

بتایا جائے ملک میں ٹوئٹر سروسز کن ایس او پیز کے تحت دی گئیں؟ لاہور ہائیکورٹ

بتایا جائے ملک میں ٹوئٹر سروسز کن ایس او پیز کے تحت دی گئیں؟ لاہور ہائیکورٹ
پاکستان میں 17 فروری سے ٹوئٹر پر پابندی ہے اور ٹوئٹر کا کوئی نمائندہ پاکستان میں موجود نہیں، وی پی این پر ہمارا کنٹرول نہیں ہے: حکومتی وکیل/ فائل فوٹو

لاہور ہائیکورٹ کی چیف جسٹس عالیہ نیلم نے کیس کی سماعت کے دوران استفسار کیا کہ بتایا جائے ملک میں ٹوئٹر کی سروسز کن ایس او پیز کے تحت دی گئی ہیں؟ 

لاہور ہائیکورٹ کی چیف جسٹس عالیہ نیلم نے وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کی مبینہ ویڈیو کے خلاف درخواست پر سماعت کی جس سلسلے میں ایف آئی اے اور وفاقی حکومت کے وکلا عدالت میں پیش ہوئے۔

دوران سماعت وکیل ایف آئی اے نے کیس میں پیشرفت سے متعلق عدالت کو  آگاہ کیا کہ ملزم محمد شفیق کو گجرات سے گرفتار کرلیا گیا ہے، اس پر عدالت نے پوچھا کہ یہ تمام مٹیریل گرفتار ملزم نے تیار کیا ؟  ایف آئی اے وکیل نے بتایا کہ ویڈیو  ایک سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے پہلے اپ لوڈ ہوئی اس کو پکڑا،  تفتیش ہورہی ہے جیسے جیسے تفتیش ہوگی مزید ملزم سامنے آئیں گے۔ 

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سوشل میڈیا پر اچھے کام بھی ہورہے ہیں لوگوں کو فوائد بھی ملتے ہیں، اچھی چیزوں کا استعمال ہونا چاہیے مگر بری چیزوں کو روکنا ہے۔

جسٹس عالیہ نیلم نے پوچھا کہ بتایا جائے ملک میں ٹوئٹر کی سروسز کن کن ایس او پیز کے تحت دی گئیں؟ وفاقی حکومت کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پاکستان میں 17 فروری سے ٹوئٹر پر پابندی ہے اور ٹوئٹر کا کوئی نمائندہ پاکستان میں موجود نہیں، وی پی این پر ہمارا کنٹرول نہیں ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ یو اے ای سے جاکر سروسز لیں وہاں وی پی این استعمال کرنا جرم ہے۔

ایف آئی اے افسر نے بتایا کہ ہم نے امریکی سفارت خانے کو خط لکھ دیا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا یہ خط تو پہلے دن سے موجود ہے۔ 

بعد ازاں عدالت نے پنجاب حکومت اور دیگر فریقین کو جواب جمع کروانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 29 اگست تک ملتوی کردی۔

مزید خبریں :