07 اگست ، 2024
بنگلا دیشی فوج کے حاضر سروس اور سابق افسران اور اہلکاروں نے شیخ حسینہ واجد کی مظاہرین سے نمٹنے کی پالیسی اور ان کے ملک سے فرار ہونے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
غیر ملکی خبر ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے بنگلادیش کی فوج کے ایک حاضر سروس فوجی اہلکار نے بتایا کہ آرمی چیف اور فوجی افسران نے شیخ حسینہ کے ملک چھوڑنے سے ایک دن قبل میٹنگ کی، فوج نے طلبہ احتجاج کو دبانے کیلئے طاقت کے استعمال سے انکار کر دیا تھا، شیخ حسینہ کیلئے پیغام واضح تھا اب ان کو فوج کی حمایت حاصل نہیں رہی۔
سابق فوجی افسران کا کہنا تھا کہ مظاہروں کے پھیلنے اور زیادہ اموات نے فوج کیلئے شیخ حسینہ کی حمایت کو مشکل بنایا۔
بنگلا دیشی فوج کے ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر کا کہنا تھا فوجیوں کے اندر بہت بے چینی تھی، یہی وجہ ہے کہ حکومت مخالف مظاہروں میں سابق سینیئر فوجی افسران نے بھی شرکت کی تھی۔
اس حوالے سے ایک بھارتی عہدیدار کا کہنا تھا کہ شیخ حسینہ کو سفارتی طور پر کہا گیا تھا کہ ان کا بھارت میں قیام عارضی ہونا چاہیے، شیخ حسینہ کے قیام سے بھارت کے اگلی بنگلادیشی حکومت سے تعلقات خرابی کا خطرہ ہے۔
پروفیسر محمد یونس نے بھارتی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کے بنگلادیش کے غلط لوگوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، بھارت اپنی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرے۔
شیخ حسینہ کے ملک چھوڑنے پر موجودہ اور سابق بنگلادیشی فوجی افسران ناراض ہیں اور سابق فوجی افسران کا کہنا ہے کہ شیخ حسینہ کو محفوظ راستہ نہیں دیا جانا چاہیے تھا، یہ ایک حماقت ہے۔