Time 19 اگست ، 2024
بلاگ

کیا ایران غزہ جنگ بندی معاہدے کیلئے انتقام سے دستبردار ہو جائےگا؟

کیا ایران غزہ جنگ بندی معاہدے کیلئے انتقام سے دستبردار ہو جائےگا؟
فوٹو: فائل

ایران نے حماس کے سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ کی اسرائیل کے ہاتھوں تہران میں شہادت کا انتقام لینے سے پہلے اپنی صفیں درست کرنا شروع کردی ہیں، ایرانی پارلیمنٹ کے نیشنل کمیشن نے عباس عرقچی کو ملک کا نیا وزیر خارجہ بنانے کی متفقہ طورپر منظوری دیدی ہے۔

عباس عرقچی وزارت خارجہ میں شمولیت سے پہلے پاسداران انقلاب کے فعال رکن رہ چکے ہیں، وہ ایران پر عراق کی مسلط کردہ جنگ کے دور میں پاسداران انقلاب کا حصہ بنے تھے۔

ابھی عباس عراقچی کو باضابطہ طور پر وزیرخارجہ مقرر نہیں کیا گیا کیونکہ ابھی 21 اگست کو پارلیمنٹ میں اعتماد کا ووٹ لیا جانا باقی ہے۔

61 برس کے عباس عرقچی سابق صدر حسن روحانی کے دور میں نائب وزیرخارجہ تھے اور ایران کے ایٹمی پروگرام سے متعلق عالمی مذاکرات جوائنٹ کمپری ہینسو  پلان آف ایکشن میں انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

پارلیمنٹ سے خطاب میں عباس عرقچی نے کہا کہ وہ پڑوسی ممالک کے ساتھ اپنے پیشرو حسین امیر عبدالہیان کی پالیسیاں جاری رکھیں گے، امریکی پابندیوں کے باوجود ایران کا ساتھ دینے والے چین، روس سمیت دیگر ممالک اور ابھرتی طاقتوں کے بارے میں دو ٹوک انداز میں کہا کہ ان سے تعلقات ترجیحی بنیادوں پر مضبوط کیے جائیں گے۔

حزب اللہ بھی کیا صرف اس لیے اپنے لیڈر سید حسن نصراللہ کے دست راست فواد شُکر کے قتل کا بدلہ نہیں لے گی کہ غزہ جنگ بندی ہوجائے! حماس بھی اپنے مقتول وزیراعظم کا انتقام نہیں لے گی؟

امریکا کے حوالے سےعباسی عرقچی نے واضح کیا کہ صدر مسعود پزیشکیان کی انتظامیہ کشیدگی کو مینج کرنے کی کوشش کرے گی اور ہرممکن اقدامات کیے جائیں گے کہ کسی طرح امریکی پابندیاں ختم کی جائیں تاہم اُسی سانس میں یہ بھی کہا کہ فلسطین ہو یا دیگر مزاحمتی عناصر ان کی مدد کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔

خفیہ امور سے متعلق نامزد وزیر اسماعیل خطیب نے کہا کہ 53 ممالک کی انٹیلی جنس سروسز میں ایران سیکشن قائم ہے اور ایران میں سبوتاژ کی بہت سی کارروائیاں مختلف ایکٹرز کی شمولیت کے ساتھ کی جاتی ہیں۔

اسماعیل خطیب نے دعویٰ کیا کہ ایران نے 28 ممالک میں اسرائیلی جاسوسوں کی نشاندہی کی ہے تاہم ان ممالک اور جاسوسوں کے نام ظاہر نہیں کیے گئے۔ نامزد وزیر نے کہا کہ اب دشمن کوگنیٹیو وار فئیر یعنی جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے ہائبرڈ وارفئیر ایجنڈہ اپنا رہا ہے۔

خطے میں جنگ چھڑنے کی صورت میں ایران کو افغانستان سے داعش کے دہشتگرد داخل ہونے کا بھی خدشہ ہے یہ بھی واضح نہیں کہ پناہ گزینوں کی آڑ میں داعش کے کتنے دہشتگرد پہلے ہی ایران میں داخل ہو چکے ہیں اور سلیپر سیلز بناکر اس وقت کے انتظار میں بیٹھے ہوں کہ انہیں حملے کے ہدف اور وقت کا حکم ملے۔

ایران اور افغانستان کے درمیان 9 سو کلومیٹر طویل سرحد ہے، تہران کی کوشش ہے کہ جلد از جلد سرحد پر 4 میٹر بلند دیوار اور اس پر رکاوٹوں کی تعمیر مکمل کی جائے، اس بارڈر پر سکیورٹی کیمروں، ہیلی کاپٹروں اور ڈرونز سے بھی نگرانی کا منصوبہ ہے۔

موجودہ حالات میں ایران جس قدر تیزی سے فوجی، سفارتی اور داخلی اقدامات کر رہا ہے، ان کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ انتقامی کارروائی 15 روز سے ایک ماہ کے اندر ہوجائے گی

تاہم یہ سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ ایران بدلہ کب لے گا؟ سوال یہ بھی ہے کہ آیا غزہ جنگ بندی ایران کے ممکنہ حملے کو ٹال سکتی ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ غزہ جنگ بندی وقت کی ضرورت ہے، یہ جنگ پہلے ہی لبنان، شام اور یمن تک پھیل چکی ہے کیونکہ اسرائیل اپنے اہداف کو بلاتامل ان تینوں ممالک میں بھی نشانہ بنا رہا ہے لیکن کیا صرف جنگ بندی مسئلے کا حل ہے؟

ایران کے صدر مسعود پزیشکیان کی حلف برداری میں شریک حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ اور سابق وزیراعظم اسماعیل ہنیہ کی شہادت کا انتقام محض اس وجہ سے نہیں لیا جائے گا کہ غزہ جنگ بندی ہوجائے!

حزب اللہ بھی کیا صرف اس لیے اپنے لیڈر سید حسن نصراللہ کے دست راست فواد شُکر کے قتل کا بدلہ نہیں لے گی کہ غزہ جنگ بندی ہوجائے! حماس بھی اپنے مقتول وزیراعظم کا انتقام اس لیے نہیں لے گی کہ غزہ پر اسرائیلی بمباری روک دی جائے گی!

جنگ بندی کی صورت میں انتقام نہ لینے کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ ایران، حزب اللہ اور حماس ہی غلطی پر تھے کہ اسرائیل پر 7 اکتوبر کو حملہ ہوا؟

صورتحال کا تجزیہ کیا جائے تو کئی ٹھوس باتیں سامنے آتی ہیں جن سے امکان بڑھتا ہے کہ کم سے کم ایران نہ صرف اسماعیل ہینہ بلکہ شام اور لبنان میں مارے گئے اپنے فوجی کمانڈروں کا بدلہ ضرور لے گا۔

شاید اب اس حملے کا وقت زیادہ دور بھی نہیں۔ موجودہ حالات میں ایران جس قدر تیزی سے فوجی، سفارتی اور داخلی اقدامات کر رہا ہے، ان کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ انتقامی کارروائی 15 روز سے ایک ماہ کے اندر ہوجائے گی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ خود اسرائیلیوں کو بھی جنگ بڑھنے کا یقین ہے۔

بعض اطلاعات کے مطابق اکتوبر سے اب تک دس لاکھ اسرائیلی آباد کار یورپ اور امریکا سمیت ان ممالک کو واپس جا چکے ہیں جہاں سے آکر وہ اسرائیل میں آباد ہوئے تھے۔

ایران کے تازہ حملے کے خوف نے اسرائیل میں سکیورٹی سے متعلق لوگوں کے خدشات اور بڑھائے ہیں ایسے میں مغربی ممالک کی جانب سے جنگ بندی کو ایران کی جانب سے انتقام سے باز رہنے سے جوڑنے کی کتنی ہی کوشش کی جائے، یہ بات یقینی ہے کہ ایرانی حکومت کے پاس عوام اور خطے میں اپنی ساکھ بحال کرنے کا واحد ذریعہ انتقام ہے جس میں دیر ہوسکتی ہے، اندھیر نہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔