19 اگست ، 2024
اسلام آباد: ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ کےمطابق کراچی میں 35 سے 58 فیصد پینے کا پانی چوری اور لیکج کےباعث ضائع ہورہا ہے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ میں بتایا گیا ہےکہ آبادی میں تیزی سے اضافے کے باعث شہروں میں بنیادی سہولت کافقدان بڑھےگا، بڑھتی آبادی کے باعث لوگوں کا رہن سہن غیر معیاری ہورہا ہے جب کہ بلڈنگ کوڈزکی خلاف ورزی سے شہروں میں ماحول اور نظام میں خرابی ہورہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق زرعی زمینوں پربڑھتی ہوئی انکروچمنٹ کے باعث مستقبل میں غذائی قلت کاخدشہ ہے، پاکستان کوبڑھتی ہوئی آبادی کے باعث نئے شہر اور مستقل پالیسی بنانےکی ضرورت ہے، اکنامک پاور ہاؤس، تعلیم اور رہن سہن کے لیے بہتر مواقع فراہم کرنےکے لیے بھی پالیسی بناناہوگی۔
اے ڈی بی کی رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ 2018 میں کراچی کا جی ڈی پی میں حصہ 15فیصد اورٹیکسز میں 55 فیصد تھا، پاکستان کے 10 بڑے شہر وفاقی ٹیکسز میں 95 فیصد کنٹری بیوشن کررہے ہیں، اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبے، لوکل گورنمنٹ شہروں میں سروسز اور مینجمنٹ کو بہترنہیں بناسکے۔
رپورٹ کے مطابق بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث پاکستان کو سالانہ ساڑھے تین لاکھ نئے گھروں کی ضرورت ہے، آبادی کی سیٹلمنٹ کےلیے مجموعی طورپر ایک کروڑ نئےگھروں کی ضرورت ہے۔
اے ڈی بی کا کہنا ہے کہ 2040 تک پانی کی کمی کاسامنا کرنے والے ممالک میں پاکستان23 ویں نمبرپر آسکتا ہے، شہری علاقوں میں 43 فیصد آبادی کو بہترین پانی کی عدم فراہمی جیسے مسائل کاسامنا ہے، شہری علاقوں میں آبادی کو پینے کے لیے طلب سے نصف مقدارمیں پانی فراہم کیا جارہا ہے جب کہ کراچی میں پینے کے پانی کا تقریباً 35 سے 58 فیصد چوری اور لیکج کےباعث ضائع ہورہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کو 10 سال، 20 سال اور 30سالہ شہرکاری کا نیاپلان بنانےکی ضرورت ہے، میونسپل سروسز بہتر بنانے کے لیے پرائیویٹ پارٹنرشپ ایگریمنٹس کی ضرورت ہے جب کہ صوبائی حکومتوں کولوکل گورنمنٹ ایکٹ پر عملدرآمد کےلیے اقدامات کی ضرورت ہے۔