23 اگست ، 2024
پچھلی چھ دہائیوں سے وطن عزیزکی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ، تحریکوں کا چشم دید گواہ ہوں ۔ حاصل کلام ،کسی بھی حکومت کیخلاف سڑکوں پر آئیں ، امریکی اثرو رسوخ مدد کو آتا ہے ۔ 75سال سے امریکہ نے پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کو پسند فرمایا ، بھارتی آسودگی اضافی ہے ۔’’ عمران خان ‘‘شخصیات ، واقعات کو مسخ کریں ، توڑیں مروڑیں یا یوٹرن لیں، واقعات پر موقف بار بار تبدیل کریں، سہولت بدرجہ اتم موجود ہے ۔ مجال ہے 28 سالہ سیاست میں اس کیفیت میں لغزش، شرمندگی، ندامت آڑے آئی ہو۔
عسکری قیادت کو ملکی سیاست کا’’مجازی خدا‘‘ سمجھتا ہوں ۔ قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت مع بے پناہ طاقت، یہ سب عناصر ہوں تو بنتا ہے آرمی چیف ۔ جنرل باجوہ نے اپنے چھ سالہ دور میں ان تمام عناصر کا بھرپور استعمال کیا۔ آخری دنوں میں جنرل عاصم منیر کی تعیناتی رکوانے کیلئے سب جتن کیے ، اپنے ادارے تک کی پراوا نہ کی۔ جنرل باجوہ کا کردار ملکی تاریخ میں مکاری ، فریب اور جھوٹ سے مزین ہے۔ جیسے کسی سیاسی حکومت کی خرابی کا مکمل ذمہ دار حکومتی سربراہ ہوتا ہے ، اس سے کہیں زیادہ عسکری ادارےکے دلدل میں دھنسنے کا ذمہ دار بھی ادارے کا سربراہ ہوتا ہے۔
ادارے کی طرف سے موقف کہ ’’جنرل باجوہ کی مدد سے جنرل فیض عمران خان NEXUS گرفت میں آیا‘‘۔ سرغنہ معصوم ہے ، عقل یہ ماننے سے قاصر ہے ۔ مملکت کو عمران خان جیسے عفریت کے حوالےکرنا ، باجوہ فیض پلان ہی تھا ،جنرل فیض کو اس پراجیکٹ کا چیف ایگزیکٹو ہی سمجھا جائیگا ۔دورائے نہیں ، جنرل باجوہ کو فی الوقت نظرانداز رکھنا ، بہترین حکمت عملی ہے ، تائید کرونگا۔
پچھلے ہفتے اپنے کالم اور TV پروگراموں میں اپنے پونے دو سالہ موقف کو دُہرایا کہ’’ جنرل عاصم کی تعیناتی اللہ تعالیٰ نے کی ہے‘‘ ۔ ملکی طول و عرض میں تحریک انصاف نے کہرام مچایا دیا ، کفر تک کے فتوے لگا ڈالے ۔ بلاشبہ ! جنرل عاصم کا آرمی چیف بننا محیّر العقول اور انہونا واقعہ ہی تھا ۔ سارے زمینی خدا باجماعت، مقتدرہ ، بین الاقوامی طاقتیں ، عاصم منیر کی تعیناتی رکوانے کیلئے کیا کیا جتن نہیں کیے ۔ 6نومبر 2022ءموسمی تبدیلی کانفرنس میں شریک وزیراعظم شہباز شریف پاکستان کیلئے جہاز پر سوار ہوا ہی چاہتے تھے بلکہ ٹویٹ بھی کر دی تھی کہ’’ پاکستان واپس آرہا ہوں‘‘ ۔کیا مجبوری تھی کہ اگلے ہی لمحےکسی دوسرے ملک کے جہازپر سوار ، چند گھنٹے بعد جنرل عاصم کی تعیناتی رکوانے کیلئے لندن پہنچ گئے تھے ۔
دوسری طرف، عمران خان نے تعیناتی رُکوانے کیلئے بھرپور پلان ترتیب دے ڈالا ۔ یکم نومبر راولپنڈی لانگ مارچ کا مقصد یہی کچھ تھا ۔ عمران خان کو ناکام دھرنوں ، لانگ مارچ کا وسیع تجربہ ، اس دفعہ ناکامی سے بچنے کیلئے نیا فارمولا متعارف کرایا ۔ درجنوں جلسوں میں شرکاء سے حلف لیا کہ تعیناتی رُکوانے کیلئے جان مال، اسباب قربان کرنے ہیں، جہاد اکبر کا نام دے ڈالا۔ قبل ازیں، 23 اکتوبرکو ارشد شریف کا قتل ہواتو عمران خان نے ملفوف الفاظ میں ایجنسیوں کے سربراہان کو ذمہ دار ٹھہرایا ۔ میرے نزدیک ارشد شریف قتل کا مقصد لانگ مارچ کو گرمانا اورکامیاب بنانا تھا ۔
یکم نومبرکو لانگ مارچ کا آغازہوا تو عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہمیشہ کی طرح ’’غیر موجود‘‘تھا ۔ وزیرآباد میں عمران خان پر مہارت سے حملہ ہوا ، گولیاں کنٹینر کی شیلڈ پھاڑتی ٹکڑوں کی صورت عمران خان اور دیگر ساتھیوں کو لگیں ۔ میری حتمی رائے کہ عمران خان پر قاتلانہ حملہ ملک میں خانہ جنگی کیلئے تھا تاکہ مارشل لاء لگانا ممکن ہو ۔ عمران خان کو حملہ کی پیشگی خبر تھی ، برملا اظہار کر چکے تھے ، چار لوگوں کو جاننے کا دعویٰ کر رہے تھے۔ تیسرے دن جنرل باجوہ نے وزیراعلیٰ پنجاب کے بیٹے راسخ الٰہی کے فون پر عمران خان کی بیمار پرُسی کی تو ادارے کے تین نام بتائے جو مبینہ طور پر حملہ میں ملوث ہو سکتے تھے ۔ جبکہ چار ناموں کی ویڈیو بقول عمران خان ’’ لندن رکھوا دی تاکہ سند رہے‘‘۔
سیاسی جماعت کے ایک قائد نے ایک ناقابلِ یقین واقعہ بتایا ۔ اکتوبر کے آخری ہفتے میں تحریک انصاف،مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے ملکرجنرل باجوہ کو دوسری توسیع دِلا نے کا عزم دہرایا۔ چشم فلک نے دیکھا کہ اہم سیاسی رہنماء لندن ڈیرے ڈالے ،جنرل عاصم منیر کی تعیناتی رُکوانے اور کسی تیسرے بندے کو آرمی چیف بنانے کی تجویز دے رہے تھے ۔شنید ! لندن میں جہاں ہمارے قومی رہنماؤں کے ڈیرے وہاں امریکی حکام بھی موجودجبکہ سعودی شاہ سلیمان کا پیغام لیےسعودی وزیرقدم بہ قدم ، سب باجماعت جنرل عاصم کی تعیناتی رکوانے پر متفق و مصر تھے ۔ بھولنا نہیں! اکتوبر 2022میں عمران خان نے بھی کمال ڈھٹائی سے’’ میر جعفر‘‘کو دوسری توسیع دینے کا شدومد سے مطالبہ فرما دیا ۔ بقول جنرل ندیم انجم’’ جنرل باجوہ کو تاحیات آرمی چیف رکھنے پر اصرار کیا‘‘۔ بعد ازاں ایک وقت ایسا بھی کہ فرسٹریشن میں صدر عارف علوی کیساتھ مل کر نوٹیفکیشن سےکھیلنا تھا ۔ پردہ سمیں کے پیچھے ایک کردار ایسا بھی جو سکرپٹ رائٹر اور ڈائریکٹر تھا ۔ اپنا مستقبل داؤ پر لگا کر جنرل عاصم کا مستقبل ٹھکانے لگانے میں رات دن ایک کر رہا تھا ، اکثرکردار اسکے استعمال میں تھے، آجکل اپنے کیےکی سزا بھگت رہا ہے ۔
کوئی بتائے ،جنرل عاصم کا قصور کیا تھا کہ تعیناتی رکوانے کیلئے زمانہ گردش میں تھا ۔ وَمکرو ! کس کس نے کہاں کہاں ، تعیناتی رکوانے کی کیا کیا تدبیر نہیں کی ؟ ایک اکیلا نواز شریف بمقابلہ اپنی پارٹی ، وطنی مقتدرہ کا دباؤ ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف متفق ، بین الاقوامی اثر ورسوخ بھی ، کیونکر کامیاب ہوا ؟ کہ ذات باری تعالیٰ نے یہ تعینانی اپنے دستِ قدرت میں لے رکھی تھی ، واللہ خیر الماکرین ۔
عمران خان ! جنرل عاصم کی تعیناتی لندن پلان نہیں ، اللہ پلان تھی ۔ میرے لیے عمران خان کے ابہامی طرز تکلم کا تعین کرنا ممکن نہیں ۔ عمران خان سے مجھے صرف دو باتیں پوچھنی ہیں ۔ کیا عمران خان اپنے چاہنے والوںکو بتانا پسند فرمائیں گےکہ قتل کی سازش کرنیوالے چار افراد کے نام کیا ہیں ؟ یا بعد ازاں 35پنکچر کی طرح کندھے اُچک کر فرما دیں گے کہ وہ چار افراد سیاسی سٹنٹ تھا جو باجوہ اور فیض نے فیڈ کیا تھا۔ عمران خان ’’لندن پلان‘‘کی غرض و غائت ، ماہیت و اصلیت ، شامل کرداروں کی تفصیل بھی دینگے یا ماننے چاہنے والوں کو محروم رکھیں گے ؟ جنرل فیض کی گرفتاری ملکی سیاسی و عسکری تاریخ میں ایک ایسا بھونچال کہ آفٹر شاکس تھمنے کا نام نہیں لے رہے۔ گرفتاری فیصلہ کی گھڑی کو سر پر لے آئی ہے۔ہر فریق’’آر یا پار‘‘ کے دہانے پر ہے ۔فیض حمید اگر اپنا پراجیکٹ DISMENTLE کرکے مجھے میرا 2017 ءکا پرانا پاکستان واپس کر دیں تو اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں اسکی جاںبخشی کیلئے تن من دھن سے حاضر رہوں گا ۔ اگرچہ قومی مجرم اللہ کے مجرم ہیں، انکے اصل انجام کی خبر صرف اللہ ہی کو ہے!۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔