30 اگست ، 2024
ایسا بہت کم ہوتا ہے جب ایک حادثہ ایک بڑے سیاحتی مقام کی شکل اختیار کرلے۔
مگر ایسا 5 دہائیوں سے زائد عرصے قبل ترکمانستان میں اس وقت ہوا جب سوویت یونین کے ماہرین کی ایک ٹیم قدرتی گیس کی کھوج کر رہی تھی یا کم از کم ایسا سمجھا جاتا ہے۔
وہاں ہونے والے ایک حادثے کے نتیجے میں دروازہ نامی گیس کا کنواں بنا۔
یہ ایک بہت بڑا آگ کے شعلوں سے بھرا سوراخ ہے جو بتدریج ترکمانستان کی سیاحت کرنے والوں کا سب سے پسندیدہ مقام بن گیا۔
اسے 'جہنم کا دروازہ' اور 'قراقرم کی چمک' کے ناموں سے بھی جانا جاتا ہے۔
اس گڑھے کی تہہ اور دیواروں سے خارج ہونے والی گیس اس آگ کو دہائیوں کو روشن رکھے ہوئے ہے اور اس کے قریب جانے پر بہت زیادہ حرارت محسوس ہوتی ہے۔
اس کا نظارہ رات کو زیادہ ڈرامائی اور دنگ کر دینے والا ہوتا ہے۔
قراقرم صحرا میں واقع اس گڑھے کو ترکمانستان کا اہم ترین سیاحتی مقام کی حیثیت حاصل ہے۔
آغاز میں جب وہاں سیاحوں نے جانا شروع کیا تو کسی قسم کی سہولیات دستیاب نہیں تھیں اور انہیں ایک رات رہنے کے لیے سب کچھ خود ساتھ لے جانا ہوتا تھا۔
مگر اب وہاں ایسے 3 کیمپس موجود ہیں جہاں کے خیموں میں رات کو قیام کیا جاسکتا ہے جبکہ کھانے پینے کی اشیا بھی مل جاتی ہیں جبکہ معذور افراد کے لیے گڑھے تک لے جانے کے لیے ٹرانسپورٹ بھی دستیاب ہے۔
یہ گڑھا 70 میٹر چوڑا اور 30 میٹر گہرا ہے جبکہ 2018 میں اس کے اردگرد حفاظتی باڑ لگائی گئی تھی تاکہ سیاح دہکتی آگ کے بہت زیادہ قریب نہ جاسکیں۔
مگر 'جہنم کا دروازہ' شاید بہت زیادہ عرصے تک موجود نہیں رہے گا کم از کم بھڑکتی آگ کی شکل میں تو نہیں۔
ترکمانستان کی حکومت متعدد بار وہاں موجود گیس کو بچانے کے لیے مختلف منصوبوں پر غور کرچکی ہے، مگر فی الحال اس حوالے سے ابھی کوئی کام نہیں کیا گیا۔
دوسری جانب برسوں سے اس جگہ پر آنے والوں کا کہنا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں اب یہاں کے شعلے کافی چھوٹے ہوچکے ہیں۔
ایک مقامی گائیڈ کے مطابق وہ 40 برسوں سے یہاں آ رہا ہے اور گزشتہ 7 برسوں کے دوران آگ کے شعلوں کی شدت میں مسلسل کمی آئی ہے۔
کوئی بھی یقین سے نہیں بتا سکتا کہ یہ گیس کا گڑھا کب ظاہر ہوا کیونکہ سوویت عہد کی رپورٹس یا تو غائب ہیں یا ان تک دستیابی ممکن نہیں۔
اس گڑھے کے اندر جاکر کھوج کرنے والے کینیڈین مہم جو George Kourounis کے مطابق اس حوالے سے کافی تنازع اور عدم اتفاق ہے کہ یہ گڑھا کیسے وجود میں آیا۔
انہوں نے بتایا کہ 'میں نہیں جانتا کہ کس بات پر یقین کرنا چاہیے، اس حوالے سے متعدد کہانیاں موجود ہیں جو حیران کن ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ سب سے عام خیال یہ ہے کہ یہ گڑھا 1971 میں بنا اور اس کے بعد وہاں آگ بھڑکنے لگی، مگر کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ 1960 کی دہائی میں کسی وقت بنا اور 1980 کی دہائی میں وہاں آگ بھڑکنا شروع ہوئی۔
اب یہ گیس کیسے بھڑکنا شروع ہوئی یہ بھی ایک اسرار ہے۔
George Kourounis کے مطابق کچھ افراد کا کہنا ہے کہ ایسا دستی بم سے ہوا، کچھ کا ماننا ہے کہ سوویت شہریوں نے وہاں ماچس کی ایک تیلی پھینک دی تھی۔
مقامی گائیڈ نے اس حوالے سے ایک اور خیال پیش کیا۔
اس نے بتایا کہ 'اس زمانے میں یہاں قریب ایک گاؤں ہوتا تھا اور میں نے سنا ہے کہ انہوں نے گڑھے میں آگ بھڑکائی کیونکہ وہ گیس کی بو سے بچنا چاہتے تھے یا انہیں لگتا تھا کہ زہریلی گیس وہاں رہنے والوں کی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے، ان کا خیال تھا کہ یہ گیس چند ہفتوں میں جل کر ختم ہو جائے گی'۔