02 ستمبر ، 2024
اسے بھلا کے بھی یادوں کے سلسلے نہ گئے
دِل تباہ ترے اس سے رابطے نہ گئے
رئیس جراتِ اظہار میرا وَرثہ ہے
قصیدے مجھ سے کسی شاہ کے لکھے نہ گئے
اردو غزلوں کا دلدادہ یا جنوب ایشیائی موسیقی کے سحر میں ڈوبا شاید ہی کوئی شخص ہو جس نے شام چوراسی گھرانے کے کلاسیکی گلوکار استاد ذاکر علی خان کی گائی ہوئی یہ غزل نہ سُنی ہو۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عام لوگ موسیقی سے لطف اٹھا کر صرف گلوکار ہی کو داد دیتے ہیں اور اب کم ہیں جو یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ موسیقی ترتیب کس نے دی اور کلام کس شاعر کا ہے۔ اسی لیے میں نے رئیس وارثی کی اس مشہور غزل کا مقطعہ بھی پیش کیا ہے ۔
صاحب نظر افراد ضرور واقف ہوں گے کہ یہ انہی استاد ذاکر علی خان کا تذکرہ کیا گیا ہے جنہوں نے 1965 میں ہوئی آل انڈیا میوزک کانفرنس میں صرف بیس برس کی عمر میں ٹائیگرآف بنگال کا خطاب پایا تھا۔ استاد نزاکت علی خان اور سلامت علی خان کے یہ چھوٹے بھائی سن 2003 میں لاہور میں آسودہ خاک ہوئے مگر انکی گائی ہوئی یہ غزل انکے بھتیجے استاد رفاقت علی خان گا کر ماحول آج بھی رومانوی کردیتے ہیں۔
اوراس غزل کے شاعر رئیس وارثی جو امریکا میں مقیم ہیں، وہ پاکستان اوربھارت میں یکساں شہرت رکھتے ہیں۔ طویل عرصےسے نیویارک میں اپنے قیام کے دوران رئیسی وارثی نے اردو کی ترویج کے لیے اس قدر خدمات انجام دی ہیں کہ پچھلے ہفتے انہیں صدر جو بائیڈن نے لائف ٹائم اچیویمنٹ ایوارڈ سے نوازا ہے۔
رئیس وارثی اردو مرکز نیویارک کے صدر بھی ہیں، ان کی رضاکارانہ خدمات کے اعتراف میں یہ میڈل نیویارک اسمبلی کی رکن جیسیکا گونزالز نے پیش کیا۔
ادبی گھرانے سےتعلق رکھنے والے رئیس وارثی نے اردو زبان کو اقوام متحدہ کی دفتری زبانوں میں شامل کرنے کے لیے سیکرٹری جنرل کوفی عنان کےدور میں اقوام متحدہ میں پہلی اردو کانفرنس کا بھی انعقاد کیا تھا، جس میں پاکستان اور بھارت کے سربراہوں اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی اردو کی اہمیت تسلیم کی تھی۔
ان چونتیس برسوں میں رئیس وارثی نے نا صرف اردو کی کئی عالمی کانفرنسوں کا اہتمام کیا بلکہ امریکا کی نامور جامعات کولمبیا یونیورسٹی، ایم آئی ٹی اور دیگر میں منعقد ادبی پروگراموں میں بھی شرکت کی۔ ساتھ ہی وہ انٹرنیشنل ہیومینیٹرین فاؤنڈیشن، کارٹرفاؤنڈیشن اور ایمنسٹی انٹرنیشنل سے بھی وابستہ رہے ہیں۔
رئیس وارثی کو سمندر پارپاکستانیوں کی وزارت فخر پاکستان کے ایوارڈ سے نواز چکی ہے۔ ان کا مجموعہ کلام " آئینہ ہوں میں " کے نام سے پہلی بار سن 2005 میں شائع ہوا تھا ۔ اس مجموعے میں جن قد آور ادبی شخصیات کے تبصرے شامل تھے ان میں احمد ندیم قاسمی، پروفیسر گوپی چند نارنگ، ڈاکٹر جمیل جالبی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، احمد فراز، افتخار عارف اور سید ضمیر جعفری شامل ہیں۔
رئیس وارثی کی کئی غزلوں کو بے پناہ مقبولیت ملی،استاد غلام علی خان کی گائی ہوئی یہ غزل بھی رئیس وارثی ہی کی تخلیق ہے۔
عرضِ غم سے بھی فائدہ تو نہیں
ہر کوئی درد آشنا تو نہیں
ہر قدم پہ یہ سوچتا ہوں رئیس
وہ مجھے چھپ کے دیکھتا تو نہیں
اسی طرح استاد حامد علی خان نے بھی رئیس وارثی کی اس غزل کو اپنی آواز کا جادو بخشا۔
میں ایک کانچ کا پیکر وہ شخص پتھر تھا
سو پاش پاش تو ہونا میرا مقدر تھا
میں اس زمین کے لیے پھول چُن رہا ہوں رئیس
مرا نصیب جہاں بے اماں سمندر تھا
ملک کی ایک اور مایہ ناز گلوکارہ حمیرا چنا بھی کلام کا انتخاب کرتے ہوئے رئیس وارثی کو نظرانداز نہ کرسکیں۔ انکی یہ مشہور غزل رئیس وارثی ہی کی لکھی ہوئی ہے۔
طرز فکر و نظر نہیں آیا
دوستی کا ہنر نہیں آیا
اسی طرح استاد اسد امانت علی خان نے بھی رئیس وارثی کی کئی غزلیں گائیں۔
اک لمحہ وصال تھا واپس نہ آ سکا
وہ وقت کی مثال تھا، واپس نہ آ سکا
ہر دم رئیس وہ تو نظر کہ ہے سامنے
تیرا تو یہ خیال تھا واپس نہ آ سکا
پرویز مہدی کی گائی ہوئی رئیس وارثی کی غزل بیتے لمحے کئی اورنامور گلوکار بھی گا چکے ہیں۔
بیتے لمحے سُندر یادیں کب تک دل بہلاو گے
خواب کی باتیں خواب ہیں پیارے آخر تم پچھتاو گے
رئیس وارثی کو بھارت میں منعقد کئی ادبی کانفرنسوں کی صدارت کے لیے بھی مدعو کیا جا چکا ہے جس میں میرزا اسد اللہ خان غالب کے حوالے سے منعقد عالمی کانفنرس بھی شامل ہے۔
بالی وڈ کی فلم ہم تم اور مم میں اُدت نارائن اور سادھنا نے بھی رئیس وارثی کا مشہور گیت ایک لڑکی میری زندگی بن گئی، پیار کی میری جو روشن بن گئی، گایا تھا۔
رئیس وارثی کی دیگر کتابوں میں مجموعہ کلام " کائنات دل " اور لکھنو کا ادبی پس منظر بھی شامل ہیں۔
صدر جو بائیڈن کی جانب سے اعزاز ملنے کے بعد اس نمائندے سے بات کرتے ہوئے رئیس وارثی نے کہا کہ وہ امریکی صدر کے شکر گزار ہیں جنہوں نے اردو کے لیے انکی خدمات کااعتراف کیا، یہ ایوارڈ پاکستان کے لیے بھی اعزاز ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔