04 ستمبر ، 2024
سندھ ہائیکورٹ میں گزشتہ دنوں لاپتا بیٹے کی بازیابی کیس سے دستبردار ہونے والی ماں نے دہائی دی کہ کھانے کے لالے پڑے ہوں توعدالتوں کے چکر لگانے کیلئے پیسے کہاں سے لاؤں ، میرے پاس کچھ نہیں بچا۔
حیدرآباد کی رہائشی 40 سالہ مہوش جنید کی کل کائنات ایک کمرے پر مشتمل کرائےکا گھر اس کی مفلسی و غربت کی کہانی بتارہا ہے۔ چار بچوں ماں کی دکھ بھری کہانی کےکئی پہلو ہیں۔ ایک سال قبل 8 سالہ بیٹا ظہیر گھر سے لاپتا ہوا تو بیٹےکی تلاش میں، مزاروں، اسپتالوں، مردہ خانوں تک خاک تک چھان لی۔
بیٹے کی تلاش کی لگن اسےکراچی کی سندھ ہائیکورٹ لیکر آگئی، اس کی امید کو غربت نے نا امیدی میں بدل دیا لیکن گمشدہ بیٹا نہ ملا، عدالتوں کے چکر لگانے کے بجائے کیس واپس لینے کے استدعا کردی کیونکہ بھوک میں تین وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوں تو عدالتوں کے چکر لگانے کیلئے پیسے کہاں سے لائیں۔
لاپتا ظہیر کی ماں دمے اور دل کی مریضہ ہیں، شوہر محنت مزدوری کرکے بمشکل 15 ہزارکماتا ہے۔ مہوش کا کہنا ہے کہ کھانے کے لالے پڑے ہوں توعدالتوں کے چکر لگانے کیلئے پیسے کہاں سے لاؤں؟ میرے پاس کچھ نہیں بچا ۔
ان کا کہنا تھاکہ کئی دن تک بچے کھانا نہیں کھاتے، بھوکے سوجاتے ہیں، گمشدہ بیٹا ظہیر بھی بھوک کے باعث ہی گھر سے نکلا۔
خیال رہے کہ گزشتہ دنوں حیدر آباد کی خاتون اپنے 8 سالہ بیٹے کی تلاش کے مقدمے سے دستبردار ہوگئی تھی اور سندھ ہائیکورٹ میں کہا تھا کہ کیس ختم کردیں، مزدور پیشہ لوگ ہیں، ہر سماعت پر حیدر آباد سے کراچی آنا جانا افورڈ نہیں کرسکتے، نصیب میں ہوگا توبیٹا مل جائے گا۔