Time 06 ستمبر ، 2024
بلاگ

بلوچستان کا بحران، حل کیا ہے؟

بلوچستان پاکستان کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا اہم جغرافیائی حیثیت اور عظیم تاریخی ورثے کا حامل معدنیات سے مالا مال صوبہ ہے ۔ اس غیر معمولی تزویراتی ، جغرافیائی اہمیت اور وسائل کے باوجود بلوچستان طویل مدت سے دہشت گردی اور اس سے جڑے دیگر مسائل و مشکلات کا شکار ہے۔

 بلوچستان کے مسائل کو تمام اسٹیک ہولڈرز کیساتھ مل بیٹھ کر حل کرنے کی بجائے ریاستی رِٹ قائم کرنے کے یکطرفہ اقدام نے مسائل کو اور زیادہ گھمبیر بنادیا ہے۔ بلوچستان کے عوام بالخصوص نوجوانوں کے اندر بڑھتی ہوئی مایوسی اُنکے اندر نفرت کو ابھارنے کا باعث بن رہی ہے، جو قومی سلامتی اور بلوچستان میں لا اینڈ آرڈر کی بگڑتی صورتحال کیلئے خطرناک ہے۔

 صوبے کے عوام کی فیڈ ریشن پر اعتماد میں کمی ملکی سلامتی کیلئے نیک شگون نہیں۔ بلوچستان میں موجود احساس محرومی کو ختم کرنے کیلئے وہاں کے عوام اور با اثر طبقات کیساتھ باہمی اعتماد پر مبنی سماجی روابط بڑھانا وقت کا تقاضا ہے۔ بلوچستان کے وسائل پر پہلا حق بلوچ عوام کا ہے۔ بلوچ عوام کی محرومیوں کے ازالے، دیر پا امن کے قیام اور مسائل کے حل کے حوالے سے چند گزارشات بطور نا گز یر اقدامات حسب ذیل ہیں۔

ملک بھر بالخصوص بلوچستان کے عوام کو یہ پختہ یقین ہو کہ ملک میں آئین کی پاسداری، قانون کی حکمرانی عوام کی طرح ریاستی اداروں کی بھی ذمہ داری ہے۔ قانون وانصاف کے نفاذ کیلئے شفافیت پرمبنی غیر جانبدارانہ نظام کے قیام کو یقینی بنانا ہوگا۔ بلوچستان کے وسائل پر صوبے کے عوام کا حق ملکیت تسلیم کیا جائے۔ بلوچستان میں طویل عرصے سے بیرونی قوتیں دخل اندازی کر کے دہشت گردی کی سرپرستی کر رہی ہیں کلبھوشن یادیوکی گرفتاری اس کا واضح ثبوت ہے۔ اس مداخلت اور دہشت گردی کی بیخ کنی کیلئے ریاست، ریاستی اداروں اور عوام کا باہمی اتحاد و اتفاق کیسا تھ ایک پیج پر ہونا ضروری ہے۔

پاک چین اقتصادی راہداری منصو بہ یقیناً ایک گیم چینجرمنصوبہ ہے، جسکے نتیجے میں ملک کے تین صوبے طویل موٹر ویز اور دیگر عوامی منصوبوں، اورنج ٹرین وغیرہ سے مستفید ہو رہے ہیں۔ لیکن اس اہم اقتصادی ترقی کے منصوبے کے مرکز گوا در اورپورے صوبے میں ایک کلو میٹر بھی موٹر وے نہیں ہے، نہ ہی عوامی بہبود کا کوئی اور بڑا منصوبہ زیر تکمیل ہے۔ 

اس کوتاہی کا ادراک کر کے بلا تاخیر خاتمہ کیا جائے ۔ حکومت کا یہ اقدام بلوچستان کے عوام کے فیڈریشن پر اعتماد کی بحالی کا ذریعہ بنے گا۔ اس منصوبے میں بلوچستان اور سابقہ فاٹا کیلئے ریاست کی پالیسی اور حکمت عملی منصفانہ اور نتیجہ خیز ہونی چاہیے۔ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں قوم پرستی، علاقائی تعصبات کی آڑ میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران تشویش ناک اضافہ ہوا ہے۔

 حالیہ دنوں میں موسیٰ خیل کا سانحہ انتہائی لرزہ خیز ہے۔ ایسے واقعات ریاست اور قومی سلامتی کیلئے انتہائی خطر ناک ہونے کیساتھ ساتھ قوم پرست جماعتوں اور بلوچ نوجوانوں کیلئےبھی نئے خطرات کا باعث ہیں ۔ 26ا گست 2024ءکے لرزہ خیز واقعات کے اثرات کو نہایت احتیاط، حکمت وتدبرپر مینی اقدامات سے مثبت سمت کی طرف لانے کی حکمت عملی اپنائی جائے۔

بلوچستان میں عرصہ دراز سے رہائش پذیر افغان مہاجرین، تجارت پیشہ افراد کیلئے ماضی میں دی گئی غیر ضروری رعایتوں پر مبنی پالیسی میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ عدم ِحکمت، عجلت اور کرپٹ نظام کے تحت معاملات کو چلائے رکھنے کی بجائے حکمت و دانش اور حقیقی قومی مفاد پرمبنی پالیسی اور اقدامات بروئے کارلائے جائیں۔ محض سطحی اقدامات سے بلوچستان کے عوام کا اعتماد بحال نہیں کیا جا سکتا۔ بلوچ، پشتون قبائلی نظام کے تحت جرگہ سسٹم کے ذریعے مسائل کا مرحلہ وار حل تلاش کیا جائے ۔

بلوچستان کی محب وطن جمہوری قیادت کے ساتھ گزشتہ کئی دہائیوں سے شخصی آمریتوں، فوجی حکمرانوں کے دور میں غلط فہمیوں پرمبنی جارحانہ طرز عمل اب بند ہونا چاہیے۔پرویز مشرف کی طرف سے نواب اکبر خان بگٹی جیسی محبت وطن اور جمہوریت پسند قیادت کو ٹا رگٹ کر کے قتل کرنے جیسے واقعات نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔

 من پسند سیاست دانوں کو دھاندلی کے ذریعے انتخابات میں جتوانے کے نا جائز حربوں اور طرز سیاست کو ختم کیا جائے اور پورے ملک سمیت بلوچستان کے عوام کو اپنی قیادت خود منتخب کرنے کا جمہوری حق دیا جائے اورنتیجے میں سامنے آنیوالی عوامی قیادت، مینڈیٹ کو تسلیم کیا جائے۔ اعتماد کی بحالی کیلئے ضروری ہے کہ طاقت کے تمام مراکز کو تسلیم کیا جائے۔ بلوچستان کے عوام محب وطن اور باوقار روایات کے حامل ہیں۔ بلوچ عوام کا عزت و وقار ملحو ظ ر کھا جائے اور پشتونوں کے اعتماد کو بحال کیا جائے ۔ بلوچستان کے اہلِ فکر و دانش اور سیاسی قیادت بلوچستان کے پُرعزم، با صلاحیت نوجوانوں کو ساتھ ملا کر انہیں اعتماد میں لے کر مسائل کا حل نکالیں۔

بلوچستان میں حالات کی مرحلہ وار خرابی اور نوجوانوں کے اندر بڑھتی ہوئی مایوسی نے کئی مسائل کو جنم دیا ہے۔ ریاستی جبر پرمبنی پالیسی نے یہاں کے نو جوانوں کے اندر مزاحمت پر مبنی جذبات کو فروغ دیا ہے، اور انہیں اپنی آزادی کے حق اور وقار کے تحفظ کیلئے اپنی مرضی کی راہ اختیار کرنے کی طرف راغب کیا ہے۔

 ملک دشمن عناصر نے اس تمام تر صورت حال کا بھر پور فائد ہ اٹھاتے ہوئے یہاں کے نوجوانوں کے اندر بغاوت کے جذبات کو ابھارنےکیلئے بے دریغ وسائل خرچ کیے ہیں۔ دوسری طرف ریاست طاقت کے بل بوتے پر صحیح اور غلط کی تمیز کیے بغیر لوگوں کو دبانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، جس نے بلوچستان کے عوام کے اندر غم و غصے ، اضطراب اور مایوسی کی کیفیت پیدا کی ہے۔

 اب وقت ہے کہ اس غیر منصفانہ اور ماورائے آئین و قانون طر ز عمل پر نظر ثانی کی جائے۔ بلو چستان میں تاریخی اعتبار سے خواتین سیاست سے الگ رہیں اور اپنی ثقافتی، تہذیبی عظیم روایات کے پاسبان بنی رہیں ۔ لیکن نواب اکبر خان بگٹی کے المناک قتل کے بعد خواتین بھی احتجاج کے منظر پر نظر آئیں۔ پھر گوادر میں حق دو تحریک میں خواتین کا جوہری تاریخی کردار رہا اور اب لا پتہ افراد کی بازیابی کیلئے خواتین سڑکوں، چوراہوں پر سراپا احتجاج ہیں ۔

 حالات کی سنگینی کا تقاضا یہی ہے کہ عوام کو در پیش حقیقی مسائل کا درست ادراک کر کے یہ وقت ازالہ کیا جائے۔ ایک اور انتہائی اہم اور قابل توجہ پہلو بلوچستان میں اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی میں حکومت سازی کا عمل ہے، جس نے پورے بلوچستان کے سیاسی، جمہوری عمل اور حق حکمرانی کو بے اثر اور غیر متعلق کر دیا ہے۔ بلوچستان کا نوجوان با شعور اور جمہوریت پسند ہے، اسٹیبلشمنٹ کے مفادات کا تحفظ اور عوام کے مفادات کا سودا کرنیوالی قیادت پر اُسے کوئی اعتماد نہیں ہے۔

 اب وقت آگیا ہے کہ محض نمائشی اقدامات اور دعوؤں کی بجائے بلوچستان کے نوجوانوں کا سیاسی و جمہوری عمل پر اعتماد بحال کیا جائے۔ بلوچستان سمیت ملک بھر میں جاری سیاسی، معاشی بحرانوں سے نکلنے کیلئے مقتدر اور بااختیار قوتیں، قومی سیاسی جمہوری قیادت مل بیٹھ کر ایک متفقہ قومی ریاستی ایجنڈا اور پالیسی ترتیب دیں۔ بلوچستان میں ترقیاتی کاموں کا ایک جامع پلان مرتب کرے ، وہاں کے نوجوانوں کا اعتماد بحال کرنے کیلئے ایک جامع سماجی تعلیمی ترقیاتی پروگرام اور اس پر عملدرآمد کیلئے ٹھوس اور پائیدار اقدامات سے ہی ہم مسائل کے گرداب سے نکل سکتے ہیں ۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔