لبنان دھماکے شاید اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہو تاہم اسرائیل کی جانب سے کمیونیکیشن ڈیوائسز کو آلہ قتل کے طور پر استعمال کرنے کی تاریخ پرانی ہے۔
18 ستمبر ، 2024
گزشتہ روز لبنان میں کچھ پراسرار دھماکوں کی خبر آئی تو ابتدا میں اسے اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جاری کشیدگی میں کوئی معمول کا واقعہ سمجھا گیا۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ حزب اللہ اراکین کے زیر استعمال کچھ وائرلیس ریڈیو سیٹس میں دھماکے ہوئے ہیں تو شک کسی مبینہ سائبر حملے پر گیا۔
کچھ ہی دیر بعد سوشل میڈیا پر لبنان کے گلی کوچوں کی ویڈیوز سامنے آئیں تو معلوم ہوا کہ معاملہ کہیں زیادہ سنجیدہ ہے، ویڈیوز میں لبنان کی سڑکوں، بازاروں اور دکانوں میں لوگوں کو پر اسرار دھماکوں سے زخمی ہوتے اور تڑپتے دیکھا جاسکتا تھا۔
لبنان کے اسپتالوں کی ویڈیوز تو رونگٹے کھڑے کردینے والی تھیں، اب تک یہ بات واضح ہوچکی تھی کہ زخمیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا تھا کہ اسپتالوں میں بستر کم پڑگئے اور زخمیوں کو اسپتال کے فرش پر ہی طبی امداد دی جارہی تھی۔
بعدازاں مقامی اور غیر ملکی میڈیا کی جانب سے بتایا گیا کہ لبنان میں رابطے کے لیے استعمال ہونے والے مخصوص پیجرز میں دھماکوں سے درجنوں حزب اللہ اراکین زخمی ہوئے ہیں۔
تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زخمیوں کی تعداد درجنوں سے سیکڑوں اور پھر سیکڑوں سے ہزاروں میں پہنچ گئی۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق پیجرز میں ہونے والے دھماکوں سے حزب اللہ اراکین سمیت 11 افراد جاں بحق اور 4 ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں، زخمیوں میں لبنان میں تعینات ایرانی سفیر مجتبیٰ امانی بھی شامل ہیں۔
شامی مبصر ادارے برائے انسانی حقوق کی جانب سے بتایا گیا کہ حزب اللہ کے پیجر دھماکوں سے شام میں بھی 14 افراد زخمی ہوئے ہیں، شامی مبصر ادارے کا کہنا ہے کہ زخمی ہونے والوں کی شہریت کے بارے میں معلومات نہیں مل سکیں۔
ان دھماکوں کے بعد حزب اللہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ جن پیجرز میں دھماکے ہوئے انہیں چند ماہ قبل ہی خریدا گیا تھا اور اور انہیں حزب اراکین کے درمیان رابطوں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، حزب اللہ نے ان دھماکوں کا ذمہ دار اسرائیل کو ٹھہرایا۔ تاہم اسرائیل کی جانب سے سرکاری سطح پر اس حوالے سے خاموشی اختیار کی گئی۔
دو سابق اسرائیلی انٹیلیجنس اہلکاروں نے غیر ملکی میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پیجرز میں عام طور پر اتنی بڑی بیٹریاں نہیں ہوتی جن کے دھماکے سے شدید نوعیت کی چوٹیں آئیں۔
تاہم انٹیلیجنس اہلکاروں نے اس امکان کو مکمل طور پر رد نہیں کیا، ان کا کہنا تھا کہ کسی سائبر حملے کے نتیجے میں پیجر کی بیٹریاں گرم ہوکر پھٹ سکتی ہیں، اگرچہ اتنے بڑے پیمانے پر اور ایک ساتھ اتنی ڈیوائسز پر سائبر حملہ کرنا انتہائی مشکل کام ہے لیکن یہ ناممکن نہیں۔
ماہرین نے پیجرز میں دھماکوں کے حوالے سے ایک دوسرا امکان بھی ظاہر کیا ہے جسے ’سپلائی چین اٹیک‘ کہا جاتا ہے۔
سابق اسرائیلی انٹیلیجنس اہلکاروں نے بتایا کہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ لبنان جانے والے پیجرز کو لبنان پہنچنے سے پہلے ہی روک کر ان میں چھیڑ چھار کی گئی ہو۔
اس بات کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ پیچرز میں یا ان میں استعمال ہونے والی بیٹریوں میں دھماکا خیز مواد نصب کردیا گیا اور بعد ازاں سائبر حملے کے ذریعے پیجرز میں دھماکہ کردیا گیا۔
اس قدر بڑے پیمانے پر کمیونیکشن ڈیواسز کو نشانہ بنانا اور ان میں دھماکا کرنا شاید اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہو تاہم اسرائیل کی جانب سے کمیونیکیشن ڈیوائسز کو آلہ قتل کے طور پر استعمال کرنے کی تاریخ پرانی ہے۔
محمود الھمشری تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) کے رہنما تھے جو فرانس میں مقیم تھے۔ اسرائیل کی جانب سے انہیں 1972 کے میونخ اولمپکس حملوں اور اسرائیلی ایتھلیٹس کے قتل کا ذمہ دار سمجھا تھا۔
موساد کی جانب سے جب ان حملوں میں ملوث افراد کے افراد کے خلاف آپریشن راتھ آف گاڈ (خدا کا قہر) شروع کیا گیا تو محمود الھمشری بھی موساد کا ہدف بنے۔
حملے کے بعد سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق ایک موساد ایجنٹ نے صحافی کے طور پر محمود الھمشری سے رابطہ کیا اور انہیں انٹرویو کے لیے بلایا۔
انٹرویو کے لیے جب محمود اپنے گھر سے نکلے تو موساد کے ایجنٹ ان کے گھر میں داخل ہوئے اور گھر میں موجود ٹیلی فون سیٹ میں بارودی مواد نصب کردیا۔
بعد ازاں موساد کے ایجنٹوں کی جانب سے 8 دسمبر 1972 کو محمود الھمشری کے گھر فون کیا گیا اور جیسے ہی محمود الھمشری نے ٹیلی فون اٹھایا تو فون میں نصب بارودی مواد پھٹ گیا۔
حملے کے بعد محمود الھمشری کو شدید زخمی حالت میں اسپتال پہنچایا گیا جہاں وہ ایک ماہ زیر علاج رہنے کے بعد انتقال کرگئے۔
حماس رہنما یحییٰ عیاش کو ان کی بم بنانے میں مہارت کی وجہ سے فلسطینی ’المہندس‘ یا انجینئر کے نام سے جانتے تھے، کہا جاتا تھا کہ یحییٰ عیاش گھر میں موجود سازو و سامان سے بھی بم بنانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
اسرائیلی حکومت کی جانب سے یحییٰ عیاش کو اسرائیل میں ہونے والے کئی بڑے بم حملوں کا ذمہ دار سمجھاتا تھا۔
5 جنوری 1996 کو یحییٰ عیاش اس وقت جاں بحق ہوئے جب موبائل پر فون کال سنتے ہوئے ان کے موبائل فون میں دھماکا ہوگیا۔
حملے کے بعد سامنے آنے والی تفصیلات سے معلوم ہوا کہ اسرائیلی انٹیلیجنس نے یحییٰ عیاش کے زیر استعمال موٹورولا ایلفا موبائل فون میں پہلے سے ہی دھماکا خیز مواد نصب کیا ہوا تھا اور اسے اپنے ایک ایجنٹ کے ذریعے ہی یحییٰ عیاش تک پہنچایا تھا۔
سمیح ملابی فلسطینی تنظیم فتح کے سینئر رکن تھے، 17 دسمبر 2000 کو مغربی کنارے کے علاقے قلندیا میں سیمح موبائل فون کے دھماکے کے نتیجے میں جاں بحق ہوگئے، بتایا گیا کہ سمیح نے فون کال سننے کے لیے اپنا موبائل کان سے لگایا ہی تھا کہ فون دھماکے سے پھٹ گیا۔
اگرچہ اسرائیل کی جانب سے سمیح ملابی پر حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی تاہم فلسطینیوں کی جانب سے اس کا ذمہ دار اسرائیل کو ہی ٹہھرایا گیا، اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ سمیح ملابی پر حملے کے لیے بالکل وہی طریقہ اختیار کیا گیا تھا جو یحییٰ عیاش پر حملے کے لیے اختیار کیا گیا۔