20 ستمبر ، 2024
سپریم کورٹ میں پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرز کی تعیناتیوں کے کیس میں دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور وکیل اسلامی یونیورسٹی کے درمیان تلخ کلامی ہوگئی۔
سپریم کورٹ میں پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں میں مستقل وائس چانسلرز کی تعیناتیوں کے حوالے سے سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ایک یونیورسٹی نے ہم پر انگلی اٹھائی ہے۔
ریکٹر اسلامی یونیورسٹی ثمینہ ملک کے وکیل عدالت میں پیش ہوئے اور مؤقف اپنایاکہ ریکٹر خرابی صحت کے سبب نہیں آئیں، ان کو بیک بون کا ایشو ہے، ہم نے درخواست کے ساتھ میڈیکل سرٹیفکیٹ بھی لگایا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ درخواست میں ثمینہ ملک لکھا ہے جبکہ میڈیکل سرٹیفکیٹ میں ثمینہ راشد لکھا ہوا ہے، بوگس میڈیکل سرٹیفکیٹ پیش کیا گیا ہے، ریکٹر کو بلا لیں، اگر سپریم کورٹ سے ایمبولینس کی ضرورت ہے تو فراہم کی جائے۔
عدالت نے سماعت میں وقفہ کردیا۔
وقفے کے بعد سماعت کے دوبارہ آغاز پر ریکٹر اسلامی یونیورسٹی ثمینہ ملک وہیل چیئر پر سپریم کورٹ میں پیش ہوئیں۔ ثمینہ ملک کے وکیل ریحان الدین گولڑہ نے مؤقف اختیار کیا کہ آپ نے الزام لگایا تھا میڈیکل سرٹیفکیٹ جعلی ہے، ڈاکٹر ثمینہ کی حالت دیکھ لیں میڈیکل سرٹیفکیٹ کیسے جعلی ہے؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میڈیکل سرٹیفکیٹ اور دوسری دستاویز میں نام مختلف ہونگے تو شک ہی ہوگا، ایچ ای سی کہتا ہے ثمینہ ملک کو جب بھی میٹنگ کا کہیں بیماری کا بہانہ بنا لیتی ہیں۔
وکیل نے جواب دیا کہ صرف ایک میٹنگ میں شرکت نہیں کی، دیگر میں آن لائن شرکت کی تھی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ کیا ایچ ای سی کا دفتر کسی دوسرے شہر میں ہے جو آن لائن شرکت کرتی تھیں؟ یونیورسٹی میں کتنی آسامیاں خالی ہیں اس کا جواب دیں۔
وکیل ریحان گولڑہ نے کہا آپ نے یونیورسٹی بورڈ اجلاس میں بطور رکن بھی یہ سوال پوچھا تھا، وہاں بھی جواب دیا تھا آج عدالت میں بھی وہی جواب دے دیتا ہوں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہم خاموش ہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ بدتمیزی کریں اور وکیل ریحان گولڑہ کو روسٹم سے ہٹانے کی ہدایت کردی جس کے بعد سادہ کپڑوں میں ملبوس پولیس اہلکاروں نے وکیل ریحان گولڑہ کو روسٹم سے ہٹا دیا۔
چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ ڈاکٹر ثمینہ میڈیا کے قریب کیا کر رہی ہیں انہیں یہاں بلائیں؟ ثمینہ ملک روسٹرم پر آئیں تو عدالت نے سوال کیا آپ اجلاسوں میں شرکت کیوں نہیں کرتیں؟ ثمینہ ملک نے جواب دیا میں دوائی کے اثر میں ہوں کچھ وقت دیں سوالات کے جواب دے دوں گی۔
چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ آپ نے ڈرامہ کرنا ہے تو یہاں سے چلی جائیں۔
اسلامک یونیورسٹی کے وکیل نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے بطور بورڈ رکن اجلاس میں یہ سارے سوالات پوچھے تھے، آپ بورڈ کے رکن بھی ہیں اس لیے مناسب ہوگا یہ کیس نہ سنیں۔
اس پر چیف جسٹس نے کہاکہ قانون کے مطابق چیف جسٹس یا اس کا نمائندہ کئی جامعات کے بورڈ کا رکن ہوتا ہے جب معلومات نہ دینی ہوں تو اعتراض کر دیا جاتا ہے، میرے کسی اہلخانہ کی ڈگری کا کوئی مسئلہ ہوتا تو اعتراض بجا ہوتا، آپ نے کرائے کے جو لوگ رکھے ہیں پروپیگنڈے کیلئے اس کو بھی آج دیکھیں گے۔
دوران سماعت ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے حکام نے عدالت کو بتایا کہ اسلامی یونیورسٹی کو وفاقی حکومت سب سے زیادہ گرانٹ دیتی ہے، اسلامک یونیورسٹی کو سالانہ دو اعشاریہ ایک ارب روپے سے زائد گرانٹ دی جاتی ہے، سعودی عرب اور کویت سے 600 ملین کی گرانٹ آتی ہے، اسلامی یونیورسٹی کا مجموعی خسارہ چار ارب سترہ کروڑ روپے ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ نائب صدر اسلامی یونیورسٹی محمد سرور کو بورڈ آف گورنر کی منظوری کے بغیر غیر قانونی تعینات کیا گیا ہے جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایچ آر ڈائریکٹر اسلامی یونیورسٹی عتیق الرحمان سے سوال کیا کہ محمد سرور کو کیسے تعینات کیا گیا؟
عتیق الرحمان نے جواب دیا کہ محمد سرور نے مجھے کہا کہ نائب صدر یونیورسٹی تعینات کر دیں، محمد سرور کو کنٹریکٹ پر دو سال پروفیسر تعینات کیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ نے یونیورسٹی کے نائب صدر محمد سرور کی تقرری غیر قانونی قرار دے دی۔ سیکرٹری تعلیم نے اسلامی یونیورسٹی کا آڈیٹر جنرل کے ذریعے آڈٹ کرانے کی یقین دہانی کروائی۔
عدالت نے ریکٹر اسلامی یونیورسٹی ثمینہ ملک کا معاملہ وفاقی حکومت پر چھوڑ دیا اور ریمارکس دیے کہ وفاقی حکومت فیصلہ کرے کہ ثمینہ ملک کو ریکٹر کے عہدے پر رکھنا ہے یا نہیں؟
عدالت نے مزید سماعت غیرمعینہ مدت تک کیلئے ملتوی کر دی۔