28 ستمبر ، 2024
مقدس بائبل میں کہا گیا ہے ’’کب بولنا اور کب چپ رہنا ہے اس کا ایک وقت ہوتا ہے‘‘۔ تضادستان کی سیاست میں لوگ ایک طرف کی لمبی چپ اور دوسری طرف کی مسلسل آتش بیانی سے حیران و پریشان ہیں۔
3دفعہ وزیر اعظم کا عہدہ پانے والے اور سب سے زیادہ سیاسی تجربہ رکھنے والے نواز شریف نے مسلسل چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے ہر کوئی ٹامک ٹوئیاں مارتا ہے کہ وہ دراصل کیا سوچ رہے ہیں؟ دوسری طرف جیل میں قید سابق وزیر اعظم عمران خان ہر روز مسلسل آتش بیانی کرتے ہیں۔
دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ہر بیان پہلے سے مختلف ہوتا ہے جس سے کنفیوژن میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ آئیے آج جائزہ لیں کہ دو بڑی جماعتوں کے رہنمائوں کا یہ رویہ کیوں ہے اور اس سے سیاست پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں لیکن اس سے پہلے سب سے بڑی خبر، آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو پیکیج دینے پر بات ہونی چاہیے۔
اگر اس خبر کے صرف سیاسی پہلو کو دیکھیں تو مقتدرہ اور شہباز حکومت کو بہت بڑی کامیابی ملی ہے اور تحریک انصاف اور اسکے حامیوں کی پیش گوئیوں، تجزیوں اور کوششوں کو خوفناک شکست ہوئی ہے۔ تحریک انصاف سے وابستہ ہر دانش مند کا 8فروری کے پہلے سے لیکر آج تک مسلسل یہ تجزیہ رہا ہے کہ یہ حکومت خراب معیشت کی وجہ سے چل نہیں سکے گی ،کوئی ادارہ اسے قرض نہیں دیگا اور یوں حکومت معیشت کی تباہی کی وجہ سے گھر چلی جائیگی اور یوں پھرسے اقتدار تحریک انصاف کو ملے گا جو ملک کو معاشی بہتری کی طرف لے جائے گی۔ تحریک انصاف کا مفروضوں پر قائم یہ بیانیہ غلط ثابت ہو رہا ہے۔
آئی ایم ایف کے ٹیکے سے حکومت چل پڑی ہے اب سسٹم کام کرنا شروع کر دے گا۔ مشہور امریکی صحافی ران سسکنڈ نے اپنی کتاب ’’وے آف دی ورلڈ‘‘ میں لکھا ہے کہ امریکی نائب صدر ڈک چینی نے اصول پسندی کو چھوڑ کر عملیت پسندی کوترجیح دی وعدے کے باوجود بے نظیر بھٹو کا ساتھ نہ دیا جبکہ جنرل مشرف کی طاقت کو مانتے ہوئے اس کا ساتھ دیا۔ اب بھی یہی صورتحال ہے عالمی ادارے اخلاقی اصولوں پر نہیں عملیت پر چلتے ہیں کیا آئی ایم ایف نے تحریک انصاف کی جانب سے قرض دیتے ہوئے شرط لگانے کی جو بات کی تھی، کسی نے سنی؟ کیا امریکی ایوانِ نمائند گان کی بھاری اکثریت سے منظور کردہ قرار داد کا عالمی ادارے آئی ایم ایف پر کوئی اثر ہوا؟ نہیں۔ آج کی دنیا اخلاقی اصولوں پر استوار نہیں ،آج بھی عملیت پسندی ہی کا راج ہے۔ وگرنہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے کیا یہ ممکن تھا؟۔
آج کے موضوع کی طرف واپس چلتے ہوئے مجھے صوفی دانشور اشفاق احمد کے ساتھ کیا گیا ایک انٹرویو یاد آ رہا ہے اس انٹرویو میں انہوں نے مختلف سیاستدانوں کو لٹریچر اور تاریخ کے کرداروں سے تشبیہ دی تھی۔ (یہ انٹرویو میری انگریزی کتاب PERSONAL FILE میں شامل ہے) نواز شریف کے حوالے سے انہوں نے کہا تھا کہ نواز شریف لگتا ہے چینی فلسفی شین تائو سے متاثر ہیں جو عقلمندی اور خاموشی کے درمیان تعلق جوڑتے ہیں۔
شاید اسی لئے مسٹر نواز شریف پاکستانی سیاست کے مسٹر چُپ ہیں وہ لمبے لمبے وقفے خاموش رہتے ہیں۔ بولیں بھی تو بہت کم بولتے ہیں اس مثبت خاموشی یا منفی گونگے پن سے ان کی سیاست پر صحت مند اور نقصان دہ دونوں طرح کے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ تھامس کارلائل کے بقول’’ خاموشی الفاظ سے کہیں بلند تر ہوتی ہے۔‘‘ نواز شریف اپنی اسی خاموشی کی پناہ لے کر بہت سے بحرانوں او ربہت سارے فکری تضادات کو عبور کرلیتے ہیں۔ جنرل ضیاءالحق کے بارے میں ان کی خاموشی کی وجہ سے انہیں جمہوریت کے چیمپئن بننے میں کوئی دشوا ری نہ ہوئی وگرنہ کہاں ایک آمر کی ہمراہی اور کہاں جمہوریت کے نعرے۔
مگر نواز شریف اپنی چپ سے ان خطرناک گھاٹیوں تک سے گزر جاتے ہیں، آج کل وہ مقتدرہ کے ساتھ ہیں جبکہ ماضی میں وہ اسی مقتدرہ کے کردار کے سب سے بڑے ناقد رہے ہیں ،اپنی پالیسی میں تبدیلی کے بارے میں وہ آج تک ایک لفظ نہیں بولے شاید وہ سمجھتے ہیں کہ خاموشی ہی ان کی کامیاب پالیسی ہے اور وہ اپنی پارٹی کے عمل کو ہی اپنے سیاسی بیانیے کامتبادل سمجھتے ہیں لیکن آج کی ابلاغی دنیا میں یہ لمبی چپ، یہ سیاسی گونگا پن اور کسی واضح بیانیے کے نہ ہونے نے ان کا اور ان کے پیروکاروں کا رابطہ توڑ دیا ہے اور ان کی جماعت کو اس کا شدید سیاسی نقصان پہنچا ہے۔
پاکستان کی سیاست کے دوسرے اہم ترین فریق عمران خان مسلسل آتش بیانی کے قائل لگتے ہیں شاید وہ امریکی صدر جان ایف کینڈی کے اس قول سے متاثر ہیں کہ ’’تقریر کرنے کا واحد مقصد دنیا کو تبدیل کرنا ہے‘‘۔ جتنے نواز شریف چپ رہتے ہیں اتنے ہی زیادہ عمران خان بولتے ہیں تقریر پر تقریر اور پھر آئے دن نئےسے نیا مؤقف۔ ان کے مسلسل بیانات اور ان کی شعلہ بیانی نے ان کا مضبوط سیاسی بیانیہ بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے ان کے اپنے مخالفین کے خلاف جارحانہ بیانات نے ان کے سیاسی مخالفوں کیلئے زمین تنگ کردی ہے لگتا ہے کہ انہوںنے ہندوستان کے انقلابی اردو شاعر یعقوب راہی کا یہ شعر پڑھ رکھا ہے۔؎
خوش کلامی سے کب لوگ سیدھے ہوئے
تلخ گوئی کرو، بدزبانی کرو
بظاہر ان کے تند و تیز بیانیے نے ان کی جماعت میں جارحانہ رنگ بھر رکھا ہےمگر اسی آتش بیانی نے ان کو جیل میں پہنچانے میں بھی مدد دی ہے۔ جنرل عاصم منیر تو ان کے فین ہوتے تھے، عمران خان نے نہ صرف انہیں آئی ایس آئی چیف کےعہدےسے ہٹایا بلکہ ہمیشہ کیلئے ان کے خلاف ہو گئے، انہیں آرمی چیف بننے سے روکنے کیلئےلانگ مارچ تک کر ڈالا اور پھر خود اور اپنی جماعت کے ذریعے وہ زہر اگلا کہ مذاکرات کے راستے تک بند کر دیئے۔ جنرل باجوہ بھی اس آتش بیانی کا شکار ٹھہرے، انہیں آرمی چیف ہوتے ہوئے بھی میر جعفر کا خطاب دے ڈالا پھر کسی کو ڈرٹی ہیری، کسی کو مسٹر ایکس کا نام دیا۔ ان کا ہر مخالف مولانا ڈیزل ہے اور ان کا ہر دوست دنیا کا بہترین آدمی۔ ان کی سوچ میں صرف سیاہ اور سفید رنگ ہیںجبکہ دنیا کے لوگوں کی اکثریت نہ سیاہ ہے نہ سفید بلکہ سرمئی ہے جب تک مخالف کو تسلیم نہ کیا جائے حمایت بھی فائدہ مند نہیں ہوتی۔ جس حکومت کی اپوزیشن نہ ہو تو وہ حکومت نہیں آمریت ہوتی ہے۔
آتش بیانی نے جو فتوحات کرنی تھیں وہ ہو چکیں اب اس کے منفی اثرات کا دور ہے، کہا جاتا ہے کہ وہ عالم اسلام اور دنیا کے بڑے لیڈر ہیں مگر حقیقی صورتحال یہ ہے کہ بھٹو گرفتار ہوئے تو دنیا کے ہر دارالحکومت نے پاکستان سے احتجاج کیا۔ اسلامی ممالک اور مغربی ممالک نے بھٹو کی پھانسی روکنے کیلئے کیا کیا جتین نہ کئے۔ نواز شریف گرفتار ہوئے تو سعودی عرب ضمانت دے کر انہیں اپنے ملک لے گیا اور یوں جنرل مشرف کے مشکل دور سے انہیں بچا لیا۔
بے نظیر بھٹو کے لئے بھی دنیا کے ہر ملک سے آواز اٹھتی تھی آصف زرداری کیلئے بھی خلیجی ملک سے دباؤ پڑتا رہا ہے مگر عمران خان کی حمایت میں ایسی سفارتی سرگرمی نہ کسی اسلامی ملک نے دکھائی ہے نہ کسی مغربی ملک نے۔ اگر ان کے حق میں کوئی آوازیں آ بھی رہی ہیں تو وہ ان کی دوستی اور محبت سے زیادہ انسانی حقوق کی بحالی کی ہیں گویا بین الاقوامی طور پر عمران خان کیلئے کسی ایک بھی ملک سے ان کی ذاتی ہمدردی میں آواز نہیں آئی۔ تحریک انصاف اور عمران خان کو اپنی اس بین الاقوامی تنہائی پر ضرور غور کرنا چاہیے وگرنہ تو مشرف کی اقتدار سے علیحدگی کے بعد ان کی مدد کیلئےبھی سعودی عرب، دوبئی اور امریکہ آ گئے تھے۔
مسلسل آتش بیانی کی حکمت عملی اختیار کرنے والی تحریک کو تلخ حقائق کی ایک سخت خوراک بطور دوا لینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ افسانوں اور خواہشوں کی دنیا سے باہر آئے۔ 9مئی اور بعد تک یہ خیال کیا جاتا رہا فوج کے اندر بغاوت ہوگی پورے ملک میں انقلاب آ جائے گا ایسا نہ ہو سکا بلکہ الٹ ہوا۔ پھر عدالتوں سے سب توقعات وابستہ کرلی گئیں، نہ جسٹس عطاء بندیال کچھ کر سکے نہ ان کے دوسرے حمایتی جج کپتان کو جیل سے نکال سکے۔ معیشت تباہ ہونے کا خواب بھی ٹوٹ چکا۔
پاکستان کو بین الاقوامی طور پر رسوا کرنے اور تنہا کرنے میں کوئی خاص کامیابی نہیں ملی۔ فوج سے براہ راست مذاکرات میں بھی کامیابی نہیں ملی۔ صرف ایک ہتھیار ایسا ہے جو تحریک انصاف کے پاس سب سے طاقتور اور مضبوط ہے ،وہ ہے پاپولیریٹی۔ لیکن اگر غلط توقعات کا یہ سلسلہ جاری رہا اور امید پر امید ٹوٹتی رہی تو اِسے بھی نقصان پہنچے گا ،واحد راستہ سیاسی جدوجہد، سیاسی اتحاد اور پھر سیاسی جماعتوں سے مذاکرات ہے، اخلاقی برتری کو عملی فتح میں بدلنے کا یہی واحد طریقہ ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔