2015 میں سپریم کورٹ کے فیصلے نے پہلے ہی یہ واضح کر دیا تھا کہ اگر آئینی ترامیم آئین کے بنیادی سٹرکچر کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتی ہیںتو انہیں عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔
03 اکتوبر ، 2024
حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز (PML-N) سے تعلق رکھنے والے سینیٹر عرفان صدیقی نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کے آئین کے مطابق آئین میں ترمیم کرنے کےلئے پارلیمنٹ کے اختیار پر کوئی حد نہیں ہے اور یہ کہ ان ترامیم کو عدالتوں میں نہیں چیلنج کیاجا سکتا۔
دعوی گمراہ کن ہے۔
25 ستمبر کو ایک پریس بریفنگ کے دوران سینیٹر عرفان صدیقی نے آئین کا آرٹیکل 239 (5) پڑھ کر سنایا، جس میں کہا گیا کہ کسی بھی عدالت میں کسی بھی بنیاد پر کسی بھی آئینی ترمیم پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ ”اس کے باوجود ہماری ترامیم کو عدالت میں چیلنج کیا جاتا ہے، جیسے کہ 18ویں ترمیم۔ “ ان کا مزید کہنا تھا کہ اب آرٹیکل 239(5) کالعدم ہو گیا ہے۔
سینیٹر نے کہا کہ اسی آرٹیکل کی شق 6 کہتی ہے کہ آئین کی کسی بھی شق میں ترمیم کرنے کے لیے پارلیمنٹ کے اختیار پر کوئی پابندی نہیں ہے۔
عرفان صدیقی کے ریمارکس کو یہاں 00 : 8 ٹائم اسٹیمپ پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
دو وکلاء، سپریم کورٹ کے ایک سابق جج، اور سپریم کورٹ کا 2015 کا فیصلہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ آئین میں ترمیم کے لیے پارلیمنٹ کے اختیارات پر کچھ پابندیاں ہیں، جنہیں عدالت میں لے جایا جا سکتا ہے۔
اسلام آباد میں مقیم وکیل سالار خان نےٹیلی فون پر جیو فیکٹ چیک کو بتایا کہ سپریم کورٹ اس سوال کا فیصلہ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن (راولپنڈی) بمقابلہ فیڈریشن آف پاکستان (PLD 2015 SC 401) کیس کے 2015 کے فیصلے میں پہلے ہی کر چکی ہے، جس میں 18ویں اور 21ویں آئینی ترامیم کی درستگی کو چیلنج کیا گیا۔
انہوں نے وضاحت کی کہ ”ابتدائی سوال [عدالت کے سامنے] یہی تھا کہ آرٹیکل 239 میں جو پابندی ہے کیا اس کےہوتے ہوئے بھی آئینی ترمیم چیلنج ہو سکتی ہے کہ نہیں۔“
”اس میں جو سپریم کورٹ کے بینچ کی اکثریت تھی انہوں نے یہ کہا تھا کہ آئین کے کچھ salient features ہوتے ہیں کہ اگر ان کی خلاف ورزی ہو تو اس صورت میں عدالت عظمی ان ترامیم کو سٹرائیک ڈاون کر سکتی ہے ۔“
سالار خان نے مزید کہا کہ اس کیس میں حا لانکہ عدالت نے مذکورہ بالا ترامیم کو کالعدم نہیں کیا، لیکن اس نے تسلیم کیا کہ اسے آئین کی salient features کے خلاف ہونے کی صورت میں پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت سے منظور شدہ ترامیم کو منسوخ کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
سالار خان کا کہنا تھا کہ ”میں یقینی طور پر سمجھتا ہوں کہ یہ جو بیان ہے سینیٹر صاحب کا یہ گمراہ کن ہے کیونکہ اس پر جب سپریم کورٹ کا حتمی فیصلہ آ چکا ہے تو یہ آئین کی ہی تشریح ہے۔“
کراچی سے تعلق رکھنے والے وکیل صلاح الدین احمد نے سالار خان سے اتفاق کیا۔ انہوں نے بھی سپریم کورٹ کے 2015 کے اسی فیصلے کا حوالہ دیا۔
وکیل صلاح الدین احمد نے جیو فیکٹ چیک کو میسجز کے ذریعے بتایا کہ ”سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ آئینی ترامیم کو چیلنج کیا جا سکتا ہے اگر وہ محضamendatory power سے تجاوز کرتی ہوں اور آئین کے بنیادی اسٹرکچرز یا salient features جیسے فیڈرلزم، پارلیمانی جمہوریت، یا عدلیہ کی خودمختاری کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔“
سپریم کورٹ کے سابق جج فیصل عرب نے بھی سینیٹر عرفان صدیقی سے اختلاف کیا۔
سابق جج فیصل عرب نے کہا کہ ”آئین کے کچھ بنیادی اسٹرکچرز ہیں، جہاں بنیادی اسٹرکچر کو ڈسٹرب کیا جاتا ہے وہاں آئینی ترمیم بھی عدالت سٹرائیک ڈاون کر سکتی ہے۔“
سابق جج نے مزید کہا کہ ” اگر کل، [مثال کے طور پر] پارلیمنٹ ایک ترمیم منظور کرتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ عام انتخابات ہر 10 سال بعد کرائے جائیں گے یا پارلیمنٹ کے اراکین کو تاحیات منتخب کیا جائے گا لیکن یہ تو نہیں ہو سکتا کیونکہ بنیادی اسٹرکچر جہاں ڈسٹرب ہو گا وہاں کورٹ آئے گی۔“
ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن (راولپنڈی) بمقابلہ فیڈریشن آف پاکستان (PLD 2015 SC 401) میں سپریم کورٹ کے 17ججوں میں سے 13 کی ایک بڑی تعداد نے یہ فیصلہ دیا کہ عدالت آئینی ترمیم کو ختم کر سکتی ہے اگر وہ آئین کی نمایاں خصوصیات کو منسوخ، تبدیل یا ختم کرتی ہے۔
اس فیصلے کو یہاں پڑھا جا سکتا ہے۔
ہمیں X (ٹوئٹر)@GeoFactCheck اور انسٹا گرام@geo_factcheck پر فالو کریں۔
اگر آپ کو کسی بھی قسم کی غلطی کا پتہ چلے تو [email protected] پر ہم سے رابطہ کریں۔