Time 06 اکتوبر ، 2024
بلاگ

توہین مذہب کے نام پر پرتشدد واقعات

مذہب کے نام پر پر تشدد واقعات، املاک کو نقصان، اقلیتی برادری پر حملے،جلاؤ گھیراؤ، پر تشدد ہجوم کے ہاتھوں انسانی جانوں کی ہلاکتیں، پاکستان میں ایسے واقعات میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ 

پچھلے کچھ سالوں میں اس قسم کے درجنوں واقعات ہوئے، جن میں مبینہ توہین مذہب کا الزام لگا کر بستیوں کی بستیاں جلا دی گئیں، انسانوں کو زندہ جلا دیا گیا، مردان میں مشعال خان، سری لنکن شہری کا سیالکوٹ میں قتل، کوٹ رادھا کشن، بہاولپور،سوات، چارسدہ، رحیم یار خان، کوئٹہ، گوجرہ سمیت ایسے کئی واقعات ہیں،جن میں توہین مذہب کا الزام لگا کر انسانوں کو قتل کردیا گیا۔ 

گوکہ ان واقعات میں بڑی تعداد اقلیتی برادری کی تھی۔ حالیہ دنوں میں ڈاکٹر شاہنواز کے ماورائے عدالت قتل کا واقعہ،جس نے رونگٹے کھڑے کر دیے۔ ڈاکٹر شاہنواز پر مبینہ طور پر توہین مذہب کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ 

سندھ کے صحرائی ضلع عمر کوٹ میں ڈاکٹر شاہنواز کو جعلی پولیس مقابلے میں قتل کیا گیا،ان کی لاش کو جلایا گیا، قبرستان میں تدفین کے لیے جگہ نہ دی گئی۔یہ ایسا واقعہ ہے،جس نے ہر ذی شعور انسان کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔ یاد رہے کہ جس شخص نے ڈاکٹر شاہنواز کی میت کو جلایا، اس سے ڈاکٹر شاہنواز نے قرآن پاک کی تعلیم حاصل کی تھی۔

ڈاکٹر شاہنواز نے 2008 میں لمس یونیورسٹی سے ایم بی بی ایس کیا۔ کراچی،عمرکوٹ کے اسپتالوں میں تعینات رہے۔ اپنے مریضوں سے ان کا رویہ محبت بھرا اور شفقت لیے ہوتا تھا۔ 

ڈاکٹر شاہنواز کے چچا زاد بھائی اور کزن جنید کنبھر ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر شاہنواز اپنے مریضوں سے ایسے بات کرتے تھے کہ ان کا آدھا مرض ان کی باتوں سے ہی ختم ہوجاتا تھا۔ کسی بھی مرض کی تشخیص فوراً کرلیتے۔ نماز اور روزے کے پابند انسان تھے۔ لوگوں سے ہمدردی رکھنے والے اور رحم کرنے والے انسان تھے، جس قسم کا الزام لگا کر ان کا قتل کیا گیا،ہم تصور بھی نہیں کر سکتے کہ شاہنواز ایسا عمل کر سکتا ہے، وہ آج کل کے ملک حالات پر اکثر نالاں نظر آتا تھا،ملکی سیاست اور حالات پر اپنے خیالات کا اظہار کرتا رہتا تھا، لیکن مذہب کے معاملے میں وہ ایسا عمل کبھی نہیں کر سکتا۔ ڈاکٹر شاہنواز کی ذہنی حالت سے متعلق کہا جا رہا ہے کہ وہ مکمل طور پر ٹھیک نہیں تھے، اس متعلق جنید ایڈوکیٹ نے بتایا کہ وہ اپنے بیٹے کی صحت کو لے کر ذہنی دباؤ کا شکار تھے، ان کا علاج چل رہا تھا۔

ڈاکٹر شاہنواز کی شادی 2009 میں نعمت نامی خاتون سے ہوئی۔ نعمت اسکول ٹیچر ہیں، کہتی ہیں کہ ان کا شوہر ایک سچا اور اچھا مسلمان تھا، مذہب کے جھوٹے نام لیواوں نے ان کا سب کچھ چھین لیا ہے، والدین سے ان کا لاڈلہ بیٹا، بچوں سے ان کے باپ کا سایہ اور بہن بھائیوں سے محبت کرنے والا بھائی۔ 

وہ ڈاکٹر شاہنواز سے آخری ملاقات سےمتعلق بتاتی ہیں کہ اتوار کے روز وہ گھر تھے، شاہنواز سے بازار سے کچھ کتابیں منگوائیں،اس نے گھر میں کچھ وقت گزارا اور پھر کہا کہ عمر کوٹ شہر جا رہا ہوں،شام میں واپسی ہوئی،بچوں کے ساتھ کھانا کھایا،پیر کے روز کہا کہ وہ کراچی جا رہا ہے، کراچی آنا جانا معمول کی بات تھی، اس لیے ہم نے زیادہ پوچھ گچھ نہیں کی۔ گاؤں میں موبائل سگنل نہ ہونے کے باعث رابطہ نہ ہوسکا۔ اگلے روز پتا چلا کہ شاہنواز پر اس قسم کا الزام لگایا گیا ہے۔ ہم خاندان والوں نے قانون پر اعتماد کرتے ہوئے اسے پولیس کے حوالے کیا، اگر پتا ہوتا کہ پولیس والے خود ہی عدالت لگا کر اسے قتل کر دیں گے تو کبھی بھی اسے پولیس کے حوالے نہ کرتے۔ وہ تو اپنے بچوں کے مستقبل کو لے کر خواب دیکھتا تھا، بیٹے شاہ زین جس کے دل میں سوراخ ہے، اس کی بیماری کو لے کر پریشان رہتا تھا، علاج کے لیے بھارت تک کے ڈاکٹرز سے رابطے میں تھا،اس کا ارادہ تھا کہ اکلوتی بہن ،جس کی شادی رشتے داروں میں فوتگی ہونے کے باعث ایک ہفتہ تاخیر کا شکار ہوگئی تھی،کے بعد بچے کی بیماری کے علاج کے لیے کچھ کرے گا، لیکن ایسا نہ ہوسکا ۔

لاڈلی اکلوتی بہن،جسے کچھ دنوں بعد رخصت ہونا تھا بھائی کے اس طرح چلے جانے پر صدمے میں ہے۔ خاندان کی عورتوں کو تدفین سے پہلے شکل تک نہ دیکھنے دی گئی،مدد کے لیے مقامی وڈیروں اور ہمسایوں تک کے پاس گئے لیکن کسی نے کھڑکی دروازہ نہ کھولا۔ یہاں کی ہندو برادری نے ڈرے سہمے خاندان کے لیے اپنے دروازے کھولے اور ڈھال بنے۔ 

ڈاکٹر شاہنواز جس نے اپنے آخری ویڈیو بیان میں یہ کہا تھا کہ قانون کو اپنا کام کرنے دیا جائے۔اس پر لگایا گیا الزام غلط ہے، توہین مذہب سے متعلق مواد سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اس کے باوجود اسے ماورائے عدالت قتل کردیا گیا۔ 

واقعے کے بعد ڈاکٹر شاہنواز کے اہل خانہ کو سکیورٹی تو فراہم کر دی گئی ہے،لیکن وہ شدید خوف کا اب بھی شکار ہیں، بچے سہمے ہوئے ہیں، ارد گرد کے ماحول میں خوف ہے، لیکن اس تمام صورتحال میں آفرین ہے سندھ کے عوام پر، سول سوسائٹی پر جو نکلے اور اس بے بس اور خوفزدہ خاندان کے پاس پہنچے اور بتایا کہ وہ اکیلے نہیں ہیں۔ سلام ہے اس پریم کولہی کو،جس نے بتایا کہ انسانیت سے بڑھ کر کوئی دھرم نہیں۔ پریم کولہی جو نفرت سے لڑا اور جلتی لاش کو اپنی جان پر کھیل کر بچایا۔ 

ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والا پریم کولہی یقیناً ان تمام نام نہاد مذہب کا پرچار کرنےوالوں سے افضل ہے،جن کا مقصد سوائے انتشار اور انتہا پسندی کچھ نہیں۔

افسوس اس بات کا ہے کہ اس سے پہلے بھی ایسے درجنوں واقعات ہوچکے، پر تشدد ہجوم کے ہاتھوں انسانی جانوں کا چلےجانا لمحہ فکریہ ہے، قانونی کارروائی سے قبل ہی بات اتنی بڑھ جاتی ہے کہ بے قابو ہجوم جان لینے سے کم پر آمادہ نہیں ہوتا، اس قسم کے واقعات دنیا بھر میں پاکستان کے لیےخفت کا باعث بن رہے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ بیان بازی سے بڑھ کر آگے کے اقدامات کیے جائیں۔ ہمارے سماجی اور انتظامی ادارے مل بیٹھیں اور ان جیسے واقعات کی روک تھام کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات کریں۔ تشدد پر اکسانے اور قانون اپنے ہاتھ میں لینے والوں کے خلاف سخت قوانین بنائے جائیں اور جرم ثابت ہونے پر سزائیں دی جائیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔