Time 07 اکتوبر ، 2024
بلاگ

سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل نے قومی لیجنڈز کے ساتھ کیا کیا؟

سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل نے قومی لیجنڈز کے ساتھ کیا کیا؟
فوٹو: فائل

سرکاری یا غیرسرکاری دستاویز پر دستخط کیے جانے کو عرف عام میں چڑیا بٹھانا کہتے ہیں، یہی چڑیا بجٹ منظوری پر بٹھا دی جائے تو سرکاری ملازمین اور پنشنرز کی ماہانہ آمدنی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

 مگر اس چڑیا بٹھانے سے بھی جن افراد کو سرکاری سطح پر وظائف دیے جاتے ہیں، عموماً ان کے وظائف میں اضافہ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ سالہا سال وہ اسی قلیل رقم پر گزارہ کرتے ہوئے اپنی سادگی کا بھرم قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ملک کے اہم عہدوں پر تعینات شخصیات بلحاظ عہدہ چونکہ بیک وقت کئی دیگر اہم اداروں، تنظیموں اور ٹرسٹ کے سربراہ بھی ہوتے ہیں، اس لیے ان شخصیات کی مصروفیات میں ان سے وابستہ امور کی انجام دہی بھی شامل ہوتی ہے۔ جہاں تک سندھ کے گورنر کا تعلق ہے تو وہ صوبے کی جامعات کا چانسلر اور لیجنڈز فنڈز سمیت کئی ٹرسٹس کا پیٹرن انچیف بھی ہوتا ہے۔

سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل نے قومی لیجنڈز کے ساتھ کیا کیا؟
لیجنڈز کا کہنا ہے کہ کامران خان ٹیسوری کے گورنر سندھ بننے کے بعد سے وظائف کی ماہانہ ادائیگی جاری ہے— فوٹو: فائل

لیجنڈز فنڈ سابق گورنر سندھ ڈاکٹرعشرت العباد کے دور میں دسمبر 2006 میں قائم کیا گیا تھا۔ سندھ حکومت نے اس کے قیام کے موقع پر 5 کروڑ روپے عطیہ کیے تھے۔ اس کے ٹرسٹیز میں سابق وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین بھی شامل تھے اور صنعتکار ایس ایم منیر بھی جن کا انتقال نومبر 2022 میں ہوا۔

یہ فنڈ قائم کرنے کا مقصد زندگی کے مختلف شعبوں میں لیجنڈز تسلیم کیے جانیوالوں کو خراج تحسین پیش کرنا تھا تاکہ اگر وہ کسی مالی مسائل کا شکار ہوں تو بھی عزت سے زندگی گزار سکیں۔ ان لیجنڈز میں مایہ ناز فنکار، دانشور، شاعر، لکھاری، اسپورٹس اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات شامل ہیں۔

گورنر عشرت العباد کے بعد چیف جسٹس ریٹائرڈ سعید الزمان صدیقی، ن لیگ کے رہنما محمد زبیر اور پھر سابق وزیراعظم عمران خان کے دور میں پی ٹی آئی رہنما عمران اسماعیل کو گورنر سندھ مقرر کیا گیا تھا۔ عمران اسماعیل اگست 2018 سے اپریل 2022 تک صوبے کے گورنر رہے، بلحاظ عہدہ وہ بھی لیجنڈز ٹرسٹ کے پیٹرن انچیف تھے۔

سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل نے قومی لیجنڈز کے ساتھ کیا کیا؟
لیجنڈز نے شکوہ کیا کہ عمران اسماعیل کے دور میں انہیں ساڑھے تین برس تک ماہانہ رقم ہی نہیں دی گئی جس کے سبب انہیں شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑا— فوٹو: فائل

بعض لیجنڈز نے شکوہ کیا کہ عمران اسماعیل کے دور میں انہیں ساڑھے تین برس تک ماہانہ رقم ہی نہیں دی گئی جس کے سبب انہیں شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔  اس نمائندے نے عمران اسماعیل سے اس معاملے میں رابطہ کرنا چاہا تو بار بار پیغامات بھیجنے کے باوجود جواب نہ ملا۔

ان لیجنڈز کا کہنا ہے کہ کامران خان ٹیسوری کے گورنر سندھ بننے کے بعد سے وظائف کی ماہانہ ادائیگی جاری ہے۔ جنوری 2022 سے نومبر 2023 تک جن شخصیات کی مالی معاونت کی گئی ان میں مزاحیہ اداکارصلاح الدین طوفانی، ملک انوکھا، فٹبالر لال محمد، طبلہ نواز منور سلطان، لوک گلوکار عزیز بلوچ، سہراب فقیر و دیگر کے اہل خانہ شامل ہیں۔ تاہم فنڈ کے قیام کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ سندھ سے تعلق رکھنے والے ملک کے لیجنڈز کے ماہانہ وظیفے کو 20 ہزار سے بڑھا کر 35 ہزار روپے کیا گیا ہے۔

گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری جو اس فنڈ کے پیٹرن انچیف بھی ہیں، ان کی زیر صدارت گورنر ہاؤس میں اجلاس ہوا جس میں اسکروٹنی کمیٹی قائم کی گئی اور اس کی سفارشات اگلے اجلاس میں پیش کیے جانے کا فیصلہ کیا گیا۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے کہا کہ آج پاکستان کی نئی نسل اپنے آئیڈیلز ملک سے باہر تلاش کر رہی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے اکثر قومی ہیروز کو صحیح مقام دیا ہی نہیں۔

انہوں نے کہا کہ صرف ایک کھیل یا کسی ایک شعبے کے افراد کو قومی ہیروز کے طور پر پیش کیا جانا مناسب نہیں، ہر شعبے میں غیرمعمولی کارکردگی دکھانے والوں کو سرکاری اور نجی سطح پر سراہا جائے، اعزازات سے نوازا جائے تو نئی نسل کا حوصلہ بڑھے گا۔

گورنر سندھ نے کہا کہ نوجوان ارشد ندیم نے اولمپکس مقابلوں میں سونے کا تمغہ لے کر پوری قوم کو بتایا ہے کہ اصل ہیروز کون ہیں، خوشی کی بات یہ بھی ہے کہ پنجاب، سندھ اور وفاق کی جانب سے ارشد ندیم کو کروڑوں روپے کے انعامات دیے گئے ہیں۔

سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل نے قومی لیجنڈز کے ساتھ کیا کیا؟
ہر شعبے میں غیرمعمولی کارکردگی دکھانے والوں کو سرکاری اور نجی سطح پر سراہا جائے، اعزازات سے نوازا جائے تو نئی نسل کا حوصلہ بڑھے گا— فوٹو: فائل

لیجنڈز اور ان کی اہل خانہ کو اسی طرح نوازا جائے تو عوام کو اس بات کا یقین رہے گا کہ جو قوم کا فخر ہیں، ان کی خدمات کبھی فراموش نہیں کی جاتیں۔ یہی یقین نوجوان نسل کو ملک میں رہ کر اپنا اور وطن کا نام روشن کرنے کا حوصلہ دےگا۔

بزنس کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے کئی افراد کا کہنا تھا کہ کامران خان ٹیسوری سے پہلے گورنر ہاؤس آنیوالے لیجنڈز کے ساتھ جس قسم کا رویہ اپنایا جاتا تھا، اسے دیکھ کر انگریز گورنروں کی یاد تازہ ہوجاتی تھی۔

ملک کے نامور ترین صنعتکاروں میں سے ایک نے اس نمائندے کو بتایا کہ رواج تھا کہ گورنر صاحب سے ملنے آنے والوں کے موبائل فون جمع کر لیے جاتے اور اسے واپس لینے کیلئے ٹوکن تھما دیا جاتا تھا۔

چونکہ اکثر صنعتکار مشہور ترین موبائل کمپنی کا جدید ترین ماڈل استعمال کرتے ہیں، اسلئے ایک بار ایسا بھی ہوا کہ انہیں ساتھی صنعتکار کا موبائل فون تھما دیا گیا، گھر پہنچے تو معلوم ہوا کہ ایک شخص کی غلطی نے دو صنعتکاروں کو اذیت سے دوچار کیا۔

ملاقات کے بعد گورنر کے ساتھ تصویر جاری ہونے کا یہ عالم تھا کہ بال سلیم اللہ سے کلیم اللہ اور پھر کلیم اللہ سے سلیم اللہ تک ہی رہتی اور سُرخ فیتہ کٹنے میں ایک ہفتہ گزر جاتا۔ انہی صنعتکار نے بتایا کہ اب ہم واپسی کیلئے گاڑی میں بیٹھتے ہیں تو اس سے پہلے ہی ملاقات کی تصویر واٹس ایپ پر موصول ہوجاتی ہے۔

گورنر کی ستائش اپنی جگہ، کامران خان ٹیسوری کی جو بات صنعتکار ماننے کو تیار نہیں وہ یہ ہے کہ 'جیسے پاکستان بنایا تھا، ویسے پاکستان بچائیں، اپنا سرمایہ دے کر آئی ایم ایف سے قوم کی جان چھڑائیں۔'


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔